دس اشتہارات، سیاسی رنگ کی آمیزش کے ساتھ
مشہور برانڈ نائیکی نے حال ہی میں ایک اشتہاری مہم چلائی تھی جس میں الفاظ کے استعمال سے اس میں سیاسی رنگ پیدا کیا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے اشتہارات کو متنازعہ طور سے پیش کیا ہے۔
اپنے شیئرز کی قربانی
’’اپنے موقف پر ڈٹے رہو چاہے اس کے لیے سب کچھ قربان کرنا پڑے۔‘‘ نائیکی کی جانب سے ’جسٹ ڈو اِٹ‘ موٹو کے تحت چلائی جانے والی ایک اشتہاری مہم میں فٹبال کے سابق امریکی کھلاڑی کولن کائپرنک کو لیا گیا ہے۔ کولن نے سن 2016 میں این ایل ایف فٹ بال گیمز کے آغاز پر ملکی ترانہ بجائے جانے کے وقت کھڑے رہنے کے بجائے نسل پرستی کے خلاف ایک گھٹنے پر جھک کر احتجاج کیا تھا۔
سیاسی اور سماجی معاملات پر بات
۔معروف برانڈ بینیٹن اپنے اشتعال انگیز اشتہارات کے لیے مشہور ہے۔ ہم جنس پرست ایکٹیوسٹ اور ایڈز سے متاثر ڈیوڈ کربی کو سن 1992 میں ایک اشتہار میں شامل کیا گیا تھا۔ متعدد سر گرم کارکنوں کا موقف تھا کہ اس اشتہار کے ذریعے ایک انسان کی تکلیف کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
انسانی ابتلاؤں کے رنگ
بینیٹن کے کپڑوں پر نوے کے عشرے میں ایک خونی مافیا کے ہاتھوں انسانی ہلاکتوں سے لے کر سن 2018 میں مہاجرین کی مشکلات تک کی عکاسی پر اکثر ناقدین یہ سوال کرتے ہیں کہ ایسی تصاویر کے ذریعے اس برانڈ کے کپڑے کیوں فروخت ہونے چاہییں۔ تاہم ایسی تنقید کے باوجود یہ کمپنی اپنی یہ حکمت عملی جاری رکھے ہوئے ہے۔
مذہبی بوسہ
ایک اور اشتہاری مہم میں بینیٹن کمپنی نے فوٹو شاپ پر انحصار زیادہ رکھا۔ سن 2012 میں نفرت کے خلاف ایک مہم میں متعدد عالمی رہنماؤں کو اپنے مخالفین کا بوسہ لیتے ہوئے دکھایا گیا۔
’دائیں بازو کے نظریات والا پڑوسی ہے تو گھر بدل لیں‘
جرمنی میں کرائے پر کاریں دینے والی کمپنی ’سِکسٹ‘ نے اپنے اشتہار میں دائیں بازو اور مہاجر و اسلام مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے متنازعہ نائب رہنما الیگزانڈر گاؤلنڈ کی تصویر دکھائی ہے۔ تصویر کا عنوان ہے، ’’ہر اس شخص کے لیے جس کے پڑوس میں ایک گاؤلنڈ ہے۔‘‘ جواب میں اے ایف ڈی نے بھی ایک نسبتاﹰ کم درجے کی کمپنی کی حمایتی مہم میں کہا، ’’ہر اس شخص کے لیے جو سکسٹ کے قریب رہتا ہے۔‘‘
اذیتی کیمپ میں ماڈلنگ
آسٹریلیا میں قائم ’ویلی آئی ویئر‘ کے سن گلاسز کے ایک اشتہار کا مقصد لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرنا تو نہیں تھا لیکن ہوا یہ کہ یہ اشتہار کروشیا میں قائم ایک اذیتی کیمپ میں بنایا گیا جہاں قریب اسّی ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس ایڈ کے منظر عام آنے پر بہت غم وغصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
سیاہ فام مرد ایشیائی باشندے میں تبدیل
شنگھائی لائی شنگ نامی ایک کاسمیٹکس کمپنی نے سن 2016 میں ایک اشتہار بنایا تھا جس میں ایک سیاہ فام شخص کی ’دھلائی‘ کے بعد اسے صاف رنگت کا ایشیائی باشندہ دکھایا گیا۔ اس کمپنی پر نسل پرستی کا الزام عائد کیا تھا جس پر اسے معافی مانگتے ہوئے یہ اشتہار واپس لینا پڑا تھا۔
سیاہ خاتون بھی سفید فام بن گئیں
اسی نوعیت کا معاملہ سن 2017 میں بھی سامنے آیا جب ’ڈوو‘ نامی کمپنی نے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی پراڈکٹ کے استعمال کے بعد سفید رنگت کی عورت میں تبدیل ہوتے دکھایا تھا۔ اس کمپنی کو بھی معذرت کرتے ہوئے اشتہار کی ویڈیو تلف کرنا پڑی تھی۔