دس ہزار روہنگیا جان بچا کر میانمار سے بنگلہ دیش پہنچ گئے
30 نومبر 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد دس ہزار ہو چکی ہے۔ میانمار کی یہ اقلیت وہاں اپنے خلاف جاری ’پرتشدد کریک ڈاؤن‘ کے نتیجے میں ہمسایہ ملک فرار ہونے پر مجبور ہوئی ہے۔
روہنگیا مہاجرین کی کشتیاں بنگلہ دیش میں داخل ہونے سے روک دی گئیں
فوجیوں نے ہم سے ایک ایک کر کے جنسی زیادتی کی، روہنگیا خاتون
میانمار روہنگیا کی نسل کشی کر رہا ہے، جان میکیسِک
یہ روہنگیا اقلیت زیادہ تر میانمار کی ریاست راکھین میں آباد ہے، جسے ملکی فوج کی طرف سے ’نسلی بنیادوں‘ پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس مذہبی اقلیت کے قریب تیس ہزار باشندے اب تک راکھین سے فرار ہو چکے ہیں۔ روہنگیا مسلم برادری کے افراد کی طرف سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے کی کوششوں کے تناظر میں ڈھاکا حکومت میانمار کے ساتھ بنگلہ دیشی سرحدوں کی نگرانی مزید سخت کر چکی ہے۔
تاہم گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ڈھاکا حکومت کے مطابق یہ لوگ جب بنگلہ دیش میں داخل ہوئے تو ان کے پاس کوئی سامان نہیں تھا بلکہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کی ترجمان ویویئن ٹان نے تیس نومبر بروز بدھ بنکاک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی قابل اعتماد خبریں ہیں کہ روہنگیا کمیونٹی کے دس ہزار باشندے گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران اپنا ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی ابتر صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ویویئن ٹان نے مزید کہا، ’’صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، بنگلہ دیش پہنچنے والے ان روہنگیا مسلمانوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘
اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا افراد کا کہنا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز ان کی برادری کو دانستہ طور پر تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ایسے کئی افراد نے اپنے انٹرویوز میں کہا کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں، روہنگیا باشندوں کو ہلاک کر رہے ہیں جبکہ ان کی املاک کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف امن کا نوبل انعام پانے والی میانمار کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی نے بدھ کے روز عہد کیا کہ وہ اپنے ملک میں قیام امن اور مصالحت کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لائیں گی۔
سوچی نے کہا کہ میانمار کو کئی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ تاہم اس نئے بیان میں انہوں نے روہنگیا کمیونٹی پر ڈھائے جانے والے تازہ مظالم کے الزامات پر کوئی تبصرہ نہ کیا اور اپنے وطن میں روہنگیا مسلم اقلیت کو درپیش مسائل کو نظر انداز کر دیا۔