دفتروں کا ‘زہریلا ماحول‘
4 فروری 2021بات ایک دوست سے شروع کرتی ہوں، جس نے سوچا تھا کہ شاید ایک اچھی ڈگری حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ لیکن آج کل کی جاب مارکیٹ میں جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، وہ ہے کہ آپ انگریزی کتنی روانی سے بول سکتے ہیں، آپ کی ڈگری پاکستانی یونیورسٹی کی ہے یا پھر آپ نے تعلیم امریکا، یورپ یا کینیڈا کی مہنگی ترین یونیورسٹیز سے حاصل کی ہے۔ آپ کی رہائش کہاں ہے اور آپ کس گاڑی میں آتے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کا سوشل سرکل کون سا ہے؟
دوست نے بتایا کہ اس کو تمام انٹری ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کرنے کے باوجود جاب اس لیے نہیں ملی کیونکہ ایک نجی ادارے کے ایڈیٹر کا خیال تھا کہ وہ کراچی کے ایسے علاقے میں رہتی ہے جہاں سے جاب پر آنا جانا اس کے کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ ایڈیٹر نے کہا، ''ہماری کوشش ہوتی ہے کے ہم ڈیفنس، کلفٹن یا پی ای سی ایچ ایس میں رہنے والے افراد کو ہی اپنے ادارے میں نوکری دیں تاکہ وہ آسانی سے آ اور جا سکیں۔‘‘
میری دوست کی سمجھ نہیں آیا کے آخر جاب نہ دینے کا یہ کیا بہانا ہے۔ بعد میں انڈسٹری کے کچھ لوگوں سے پتہ چلا کے ایڈیٹر بس پُل کے اس پار والوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ ان کا یہ احساس کمتری دراصل اس لیے ہے کیونکہ وہ ایک خاص سرکل میں اٹھتے بیٹھتے ہیں لہذا میری دوست کو کہا گیا کہ پریشان نہ ہوں کیونکہ اس ستم ظریفی کا نشانہ وہ اکیلی نہیں بلکہ بہت سے اور افراد بھی رہ چکے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ایسے معاشرے میں جہاں ہر تیسری کمپنی میں ایسے افراد موجود ہوں جو دوسروں کو اسٹیٹس کے پیمانے پر ناپنے بیٹھے ہوں، ایسے میں غریب اور محنت کر کے ملک کی اچھی جامعات میں پڑھنے والے بچوں کو کامیابی کی ضمانت کون دے گا۔
جن معاشروں میں اسٹیٹس کا پیمانہ اچھا مکان، گاڑی، والدین کے پیسوں پر بیرون ملک حاصل کی ہوئی ڈگری ہو، مغربی اقدار ہوں، وہاں اپنی اقدار، اپنی زبان اور اپنی ثقافت سب ماند پڑجاتا ہے۔ حبیب جالب، صہبا اختر اور فیض کو پڑھا تو جاتا ہے لیکن کسی ماضی میں بنے آرٹ کی طرح، جیسے بڑے بڑے ایوانوں میں لگی صادقین کی تصویریں جو وہ 'ایک وقت کی روٹی کے لیے‘ بھی بنا دیا کرتے تھے۔
مجھے کسی اور زبان سےہر گز کوئی گلہ نہیں، نہ سیکھنے میں نہ بولنے میں۔ میرے دادا مرحوم نے ساری زندگی اسکول کی شکل نہیں دیکھی لیکن ڈکشنری سے یاد کیے ہوئے انگریزی کے الفاظ ایسے بول لیا کرتے تھے جیسے یہ ان کی اپنی زبان ہو۔ لیکن دوسری جانب اپنی زبان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انیس کے مرثیوں کے بند انہیں ایسے یاد تھے گویا انیس نے ان کے سامنے ہی کہے ہوں۔ اکثر سردی کی راتوں میں جب پنکھے بند ہوتے تھے تو داد مرحوم اپنی سریلی آواز میں مرثیہ پڑھا کرتے تھے جس کی گونج ہر طرف جاتی تھی۔
انیس، دبیر، جوش، غالب پڑھنا گویا ایک زمانے میں تعلیم یافتہ افراد کی پہچان تھی۔ جہاں وہ چارلس ڈکنز کی بات کرتے تھے وہیں میر تقی میر کے اشعار کا سلسلہ بھی باندھ دیتے۔
پھر کمرشل دنیا کی کمرشل یونیورسٹیز نے ایک ایسی چکا چوند پیدا کی جہاں غریب اور امیر گھرانوں کا فرق واضح ہوسکے۔ پرائیویٹ اسکولوں نے نئے نئے تعلیمی نظام پیش کرنا شروع کیے۔ کیمرج، انٹر نیشنل بیکلورئٹ اور ان میں داخلہ بچے کی پیدائش سے بھی پہلے کرانے کا عمل لازمی قرار دے دیا۔ ان اسکولوں کی فیس ظاہر ہے کے متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر رکھی جاتی ہے تاکہ ایک مخصوص طبقہ ان اسکولوں میں داخلہ لے سکے اور طبقاتی فرق بڑھتا رہے۔
پھر یہی طلبہ اچھی یونیورسٹیز میں داخلہ حاصل کرسکیں، لہذا انٹری ٹیسٹ کا اسٹینڈرڈ بھی کافی اونچا رکھا اور ایک سمیسٹر کی فیس لاکھوں میں۔ کسی کو برا نہ لگے لہذا ضرورت مند بچوں کے لیے کچھ اسکالر شپس رکھ دیں۔ وہ اسکالر شپس حاصل کرنے کے لیے ان طلبہ کو کہا گیا کے اپنی ماہانہ آمدنی، گھر میں کمرے، باتھ روم، ٹی وی، گاڑی سب چیزوں کی معلومات فراہم کریں۔ اللہ اللہ کر کے یہ بچے یونیورسٹی میں اچھے جی پی ایز لے کر پاس ہوے۔ لیکن ان کی احساس کمتری کا سفر یہاں مکمل نہیں ہوتا۔
پھر آتا ہے نوکری اور آفس کا مرحلہ جہاں ان کو بار بار اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کے یہ کمتر ہیں، ان کی تعلیم لوکل ہے۔ ان کی پروموشن بھی نہیں کی جاتی کیونکہ ان سے بہتر انگریزی میں بات کرنے والے موجود ہیں لہذا اگر یہ کسی لوکل یونیورسٹی سے گولڈ میڈل بھی حاصل کرکے آئے ہوں تب بھی بیرون ملک معمولی گریڈز حاصل کرکے آنے والے کو ہی ترجیح دی جائے گی۔
اگر آپ کو اس بات کا یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد صبح شام محنت کرنے والے افراد سے پوچھیں کہ آفسز میں ان کے کام کو سراہا کیوں نہیں جاتا۔ آپ کو جواب مل جائے گا۔