دفترِخارجہ کا بیان: کیا افغان مذاکراتی عمل متاثر ہو سکتا ہے؟
12 اپریل 2019پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کل ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کے اگلے مرحلے کا حصہ نہیں بنے گا۔ تاہم دفترِ خارجہ نے اس بات کو واضح کیا تھا کہ پاکستان نے امن مذاکرات کی ماضی میں بھی حمایت کی تھی اور وہ اب بھی افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنی معاونت جاری رکھے گا۔
افغان حکومت امن عمل میں روکاوٹ بن رہی ہے: عمران خان
جرمنی کے ساتھ روابط بڑھانے کے خواہاں ہیں، پاکستانی وزير خارجہ
اس بیان کو پاکستان میں مبصرین نے افغان امن کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ افغان اور پختون امور پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکڑ سید عالم محسود کے خیال میں اگر پاکستان ان مذاکرات کی حمایت بند کر دیتا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں اسی طرح خونریزی چلتی رہے گی۔ اس اعلان کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان شروع ہی سے یہ چاہتا تھا کہ افغانستان کی منتخب حکومت ان مزاکرات کا حصہ نہ بنے لیکن اب کیونکہ یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ افغان حکومت ان مذاکرات کا حصہ بنے گی، اسلام آباد اس پر چراغ پا ہو گیا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے اپنے لوگ، جو یقینا ًطالبان ہیں، وہ ہی مذاکرات کریں لیکن کیونکہ ایسا نہیں ہو رہا ،اس لیے پاکستان ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔جس سے افغانستان میں امن کی کوششیں ناکام ہوسکتی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلہ سے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہی نقصان ہوگا۔’’اگر پاکستان تعاون نہیں کرتا تو افغانستان میں اسی طرح دہشت گردی ہوتی رہے گی لیکن اس سے پاکستان کے خلاف تنقید بھی بڑھے گی اور عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی تنہائی میں بھی اضافہ ہو گا۔ اگر بڑی طاقتوں نے یہ فیصلہ واقعی کر لیا ہے کہ افغانستان میں امن کرنا ہے تو ایسی صورت میں پاکستان کی طرف سے عدم تعاون پر اسلام آباد کی شامت آجائے گی۔‘‘
کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کی حکومت کو حقیقی معنوں میں منتخب نہیں مانتا اسی لیے وہ اس کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے حالیہ بیانات ، جس میں انہوں نے افغانستان میں عبوری حکومت بنانے کی تجویز دی تھی، بھی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان کے لیے کابل حکومت قابلِ قبول نہیں ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکڑ ڈاکڑ پروفیسر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ دفترِ خارجہ کے اس بیان سے لگتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ افغان حکومت سے خوش نہیں ہے۔’’لیکن اگر پاکستان ان مذاکرات کی حمایت بند کر دیتا ہے تو افغانستان میں تو دہشت گردی ہو ہی رہی ہے، پاکستان میں بھی انتہا پسند دوبارہ سے منظم ہونا شروع ہو جائیں گے اور پورا خطہ ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ اگر یہ بیان پاکستان کے ارادوں کا حقیقی عکاس ہے، تو پھر افغان امن کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں دفترِ خارجہ کا یہ بیان انتہائی غیر سفارت کارانہ ہے۔’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ بیان دفترِ خارجہ والوں نے خود بنایا ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی جی ایچ کیو چلاتا ہے۔ تاہم اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ افغان حکومت کی مذاکرات میں شمولیت پر خوفزدہ ہے اور وہ نہیں چاہتی کے یہ عمل کامیاب ہو۔‘‘
ناقدین کی رائے کے برعکس کئی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پاکستان امن عمل میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ ان کا خیال ہے کہ افغان حکومت اور کابل میں بھارت نواز عناصر اس عمل کے سب سے بڑے دشمن ہے۔ ان کے اس دعوے میں کسی حد تک سچائی ہے ان کے خیال میں ماضی میں پاکستان نے مری میں طالبان کے مذاکرات کرائے تو ملا عمر کی وفات کی خبر لیک کی گئی اور جب مزاکرات دوبارہ سے زور پکڑنے لگے تو ملا اختر منصور کو ہلاک کر دیا گیا۔ ان تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ ان تمام واقعات کے باوجود اسلام آباد نے افغان امن کے لئے کوششیں کیں۔ معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں عمران خان کے بیان سے ان مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ’’افغان حکومت پہلے بھی ناراض تھی، اب بھی ناراض ہے اور وہ ناراض رہے گی بھی۔ لیکن میرے خیال میں پاکستان امن مذاکرات کی حمایت جاری رکھے گا۔ میرے خیال میں پاکستان ناراض نہیں ہے۔ وہ شروع سے ہی معاونت کر رہا ہے اور براہ راست ان مذاکرات کا حصہ بننے سے اجتناب کر رہا ہے ۔اس نے مبصر کے طور پر ابتدائی مراحل میں شرکت کی تھی۔ اور اب بھی مزاکرات میں اگر کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی تو وہ اپنا مثبت کردار ادا کرے گاکیونکہ وہ ان مذاکرات کی کامیابی کا خواہشمند ہے۔