کشمیر میں ہند نواز اہم رہنماؤں کی پہلی ملاقات
15 اکتوبر 2020بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ایک درجن سے بھی زیادہ بھارت نواز رہنماؤں کی 15 اکتوبر کی شام کو میٹنگ ہونے والی ہے جس میں وہ یہ طے کریں گے کہ کشمیر کا ریاستی درجہ دوبارہ بحال کرنے اور دفعہ 370 کو واپس لینے کے لیے کیا سیاسی حکمت عملی اپنائی جائے۔ گزشتہ برس اگست میں مودی حکومت نے کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات ختم کر دیے تھے اور تمام بڑے رہنماؤں کو قید کر دیا تھا۔ اہم رہنماوں کی رہائی کے یہ اپنی نوعیت کی پہلی میٹنگ ہے۔
حکومت نے ایک روز قبل ریاست کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی کو 14 ماہ کی حراست کے بعد رہا کر دیا تھا جس کے بعد نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیراعلی فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ نے محترمہ مفتی کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی تھی۔ ان رہنماؤں نے گوپکار ڈیکلیئریشن کے تحت ہونے والی پہلی میٹنگ کے لیے محبوبہ مفتی کو مدعو کیا جو جمعرات کی شام کو فاروق عبدللہ کے گھر پر ہونی ہے۔
گزشتہ برس چار اگست کو مودی حکومت کی کارروائی سے عین قبل ان تمام سیاسی جماعتوں نے گوپکار روڈ پر فاروق عبداللہ کے گھر پر ایک میٹنگ کی تھی اور سب نے کشمیر کی شناخت، اس کی خود مختاری اور اس کے کاز کے لیے ایک قرارداد پر اتفاق کرتے ہوئے ان مسائل پر متحد ہونے کا عہد کیا تھا۔ اس میٹنگ میں مذکورہ قراداد کے تمام شرکا کے موجود ہونے کی توقع ہے۔
محبوبہ مفتی سے ملاقات کے بعد عمر عبداللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ قید سے رہائی کے بعد انہوں نے اپنے والد فاروق عبداللہ کے ساتھ محبوبہ مفتی کی خیرت دریافت کرنے کے مقصد سے ان سے ملاقات کی تھی اور انہیں میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی۔ اس کے جواب میں محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ متحدہ طور پر ہم بہتر تبدیلی لا سکتے ہیں۔
عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر احمد شاہ نے میٹنگ میں جانے سے پہلے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ تمام رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ ''ہمیں دفعہ370 احترام اور وقار کے ساتھ واپس چاہیے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔'' ایک سوال کے جواب
میں مسٹر شاہ نے بتایا کہ میٹنگ میں اس بات پر خاص طور پر غور و خوض ہوگا کہ آیا اس کے حصول کے لیے مستقبل کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، ''اس میں ہمارے آس پاس اس وقت جو جیو پولیٹکل حالات تبدیل ہو رہیے ہیں اس حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا جائیگا۔ اس وقت جموں، لداخ اور کشمیر سبھی خطوں کی اکثریت اپنی شناخت اور وقار کے لیے متحد ہے اور سب دفعہ 370 کی بحالی چاہتے ہیں اور اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔''
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گوپکار ڈیکلیئریشن میں جو جماعتیں بھی شامل ہیں ان میں اس امور پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
کشمیر میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ تمام جماعتیں اپنے مطالبات پر متحد نظر آتی ہیں تاہم اس کے حصول کے لیے ان کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے اور شاید وہ خود اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ سینیئر صحافی الطاف حسین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ اب تک کسی جماعت یا کسی بھی رہنما نے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں کی ہے اور ان کے متضاد بیانات کنفیوژن کا سبب بنتے ہیں۔
الطاف حسین کا کہنا تھا، ''کشمیر کے سوال پر بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ مودی حکومت کو جو کرنا تھا اس نے کر دیا لیکن کشمیری رہنماؤں کی توقع کے خلاف اپوزیشن نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت کی عدالتیں، صحافی، سیاست دان اور تمام دیگر طبقات سب ایک ساتھ ہیں، تو پھر کشمیری رہنما اپنے مطالبات کی پاسداری کس سے چاہتے ہیں؟''
ان کا کہنا تھا کہ کشمیری رہنما پہلے اپنی حکمت عملی واضح کریں کہ آخر وہ اپنے مقاصد کے لیے کیا کریں گے پھر دیکھا جا سکتا ہے کہ عملی طور پر وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ''کشمیری عوام کو ان رہنماؤں سے کوئی توقع نہیں ہے اور علیحدگی پسندوں کی تمام امیدیں اب پاکستان سے وابستہ ہیں، تو اب دیکھیے آگے آگے ہوتا کیا ہے۔''
محبوبہ مفتی نے اپنی رہائی کے بعد کہا تھا کہ ''ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دلی کے دربار نے ہم سے ایک غیر جمہوری اور غیر قانونی فیصلے کے تحت جو کچھ بھی پانچ اگست کو چھینا ہے، اسے ہمیں واپس لینا ہے۔ کشمیر کے لیے ہی ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں اور ہمیں اپنی جد و جہد جاری رکھنی ہوگی۔'' ان کا کہنا تھا کہ یہ راستہ آسان نہیں ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم اسے حاصل کر لیں گے۔