جنسی غلامی معاملہ، جاپان اور جنوبی کوریا میں سفارتی کشیدگی
6 جنوری 2017جنوبی کوریا کی جانب سے بوسان شہر میں واقع جاپانی قونصل خانے کی عمارت کے عین سامنے اس مجمسے کی تنصیب کے بعد جاپانی حکومت نے احتجاج کے طور پر اپنے سفیر کو سیول سے واپس طلب کر لیا ہے۔ ٹوکیو حکومت نے بوسان شہر میں قونصل جنرل کو بھی واپس بلا لیا ہے، جب کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری کرنسی کے تبادلے سے متعلق مذاکرات بھی معطل کر دیے ہیں۔
جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان ’کمفرٹ ویمن‘ کا معاملہ ہمیشہ سے کشیدگی کا باعث رہا ہے۔
جاپانی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا ہمسایہ ممالک ہیں اور ایسے اقدامات دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث ہیں:’’جنوبی کوریا ایک اہم ملک ہے اور یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ ہمیں اس طرح کے اقدامات اٹھانا پڑے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جاپانی حکومت جنوبی کوریا سے یہ مطالبہ بھرپور انداز سے کرتی رہے گی کہ وہ اس لڑکی کا مجسمہ فوراﹰ ہٹائے۔
اہم مؤرخین کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں قریب دو لاکھ خواتین کو جاپانی فوجیوں کو ’جنسی راحت‘ فراہم کرنے پر مجبور کیا گیا، ان خواتین میں سے زیادہ تر کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا۔
جنوبی کوریا میں خواتین کے جنسی استحصال کا معاملہ نہایت حساس اور جذباتی نوعیت کا ہے۔ جنوبی کوریائی موقف ہے کہ سن 1910 تا 1945 کوریا پر جاپانی قبضے کے دوران خواتین کا زبردست جنسی استحصال کیا گیا۔
یہ مجسمہ دارالحکومت سیول میں جاپانی سفارت خانے کے قریب نصب ایک لڑکی کے مجمسے کی نقل ہے۔ اس مجمسے کے مقام پر پانچ برس سے زائد عرصے سے درجنوبی افراد ان خواتین کے ساتھ اظہار یکجتی کے لیے جمع ہوتے ہیں، جب کہ ماضی میں ان مظاہرین میں اس جنسی غلامی کی شکار ہونے والی متاثرہ خواتین خود بھی شامل رہی ہیں۔
بوسان شہر کے حکام نے اس مجسمے کو گزشتہ ہفتے ہٹا دیا تھا، تاہم جاپانی وزیردفاع ٹومومی انادا کی جانب سے ایم متنازعہ جنگی مزار پر حاضری دینے کے بعد اس مجسمے کو دوبارہ نصب کر دیا گیا۔