دماغی لہروں کی طاقت پر نئی تحقیق
10 جون 2009گذشتہ رُبع صدی سے دنیا بھر کے سائنسدان اِس موضوع پر تحقیق میں مصروف ہیں کہ کیسے دماغی لہروں کی طاقت سے کام لے کر مختلف مشینوں کو چلایا جا سکتا ہے۔
کلاؤس رابرٹ ملّر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں اور برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اُن کی لیباریٹری میں آج کل وہ خاص ٹوپی دیکھی جا سکتی ہے، جسے پہننے کے بعد انسان میں گویا جادوئی صلاحیتیں آ جاتی ہیں۔
اِس ٹوپی پر چھوٹے چھوٹے الیکٹروڈز نصب ہیں، جو انسانی کھوپڑی کی بالائی سطح پر محسوس کی جانے والی اُن لہروں کو ماپتے ہیں، جو تقریباً ایک سو ارب عصبی خلیات کی سرگرمی سے پیدا ہوتی ہیں۔ محققین اِسے الیکٹرو اینسیفالو گرام یا EEG کا نام دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دماغ میں جنم لینے والی ہر سوچ دماغی سرگرمی کے خاکے کو اور یوں ای ای جی کو تبدیل کرتی ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے سائنسدان یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ای ای جی کی مدد سے یعنی محض دماغی لہروں کی طاقت سے کام لیتے ہوئے مشینوں کو حرکت دی جائے۔ اِس مخصوص ٹوپی کو کمپیوٹر سے جوڑنے کے بعد اُسے اِس طرح سے پروگرام کیا جا سکتا ہے کہ وہ مخصوص خیالات کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرنا سیکھ جائے۔ ایک مخصوص سافٹ ویئر کی مدد سے دماغی خیالات کا ترجمہ ایسے احکامات کی صورت میں کیا جا سکتا ہے، جن کے ذریعے پھر مختلف مشینوں کو حرکت دی جا سکتی ہے۔
برلن کے تحقیقی منصوبے سے جڑے ماہرین کے خیال میں کوئی بھی شخص محنت اور مشق سے اپنے خیالات کی طاقت سے کام لینا سیکھ سکتا ہے۔ اگرچہ سائنسدان اِس تکنیک کو اِس حد تک ترقی دے چکے ہیں کہ دماغ میں خیال پیدا ہوتے ہی کمپیوٹر اُسے فوراً عملی شکل بھی دے دیتا ہے لیکن کئی حالتوں میں ابھی بھی تقریباً 600 ملی سیکنڈز سے لے کر ایک سیکنڈ تک کی تاخیر ہو جاتی ہے۔ پھر بھی جرمن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے ایسا طریقہ دریافت کیا ہے، جو دُنیا بھر میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہے۔
اِس سال مارچ میں اٹلی کے سائنسدانوں نے ایک ایسی وہیل چیئر متعارف کروائی تھی، جو دماغی احکامات سے چلتی ہے۔ اِس منصوبے پر تین سال تک کام ہوتا رہا تھا۔