’دنیا افغان مہاجرین کو نظر انداز کر رہی ہے‘
22 اگست 2016افغان مہاجرین کو ان دنوں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔ ملک کے خراب حالات اور روشن مستقبل کی وجہ سے ہزاروں افغانی آج بھی کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے جبکہ یورپی ممالک بھی افغان مہاجرین کو جلد از جلد واپس ان کے ملک بھیجنا چاہتے ہیں۔
اتوار کے روز غیر سرکاری تنظیم ناروےریفیوجی کونسل ( این آر سی) کی سربراہ کیٹ او رورکے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے واپس آنے والے مہاجرین کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ان لوگوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انہیں فوری امداد کی ضرورت ہے ورنہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
ان کا بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سلسلے میں انہیں فوری مالی امداد فراہم کی جائے۔ صورتحال کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت سے خاندانوں کے سروں پر چھت ہی نہیں ہے۔ بچوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، یہاں تک کہ پینے کے صاف پانی تک کی کمی ہو چکی ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی عشروں سے تقریباﹰ پندرہ لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے جبکہ اس ملک میں موجود غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد بھی دس لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ دنیا میں افغان مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان میں ہی آباد ہے تاہم پاکستان کو بھی اس حوالے سے کم ہی مدد فراہم کی گئی ہے۔ اتوار کے روز بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت (آئی او ایم) کی طرف سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جولائی کے بعد سے تقریباﹰ ستر ہزار افغان مہاجرین پاکستان سے واپس اپنے ملک پہنچے ہیں جبکہ جنوری کے بعد سے یہ تعداد ایک لاکھ دس ہزار کے قریب بنتی ہے۔
آئی او ایم کے مطابق افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد نہ تو پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی افغانستان میں اور انہیں اب نہ تو پاکستان سے مدد حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی افغانستان سے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انہوں نے بھی واپس آنے والے مہاجرین کے لیے مختص پیکیج بڑھا کر چار سو ڈالر فی شخص تک کر دیا ہے۔