دنیا بھر میں ڈیجیٹل کرنسی کی دوڑ، چین سب سے آگے
6 اکتوبر 2020آج کا انسان بینک میں کیش جمع کروانے یا رقم نکلوانے کے لیے جاتا ہے لیکن تصور کریں کہ مستقبل کے بینک نوٹوں سے خالی ہوں گے۔ اگر چین کے سینٹرل بینک کا 'ڈیجیٹل یوآن‘ منصوبہ کامیاب ہو گیا تو یہ تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ رواں سال کے آغاز سے چین نے مرکزی بینک کی حمایت یافتہ ڈیجیٹل کرنسی کی بتدریج جانچ پڑتال شروع کر رکھی ہے۔ چین نے اسے 'ڈی سی ای پی‘ یا 'ڈیجیٹل کرنسی الیکٹرانک پےمنٹ‘ کا نام دے رکھا ہے۔
اس وقت کئی دیگر ملک بھی اپنی ڈیجیٹل کرنسیاں متعارف کرانے کی تیاریاں کر رہے ہیں لیکن دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین ان میں سب سے آگے ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوئن کے حامی اور کروڑ پتی کینڈلر گاؤ کا اگست میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں کہنا تھا، ''مستقبل میں ہر کوئی ڈی سی ای پی استعمال کر رہا ہو گا۔‘‘
افواہوں کے مطابق آئندہ چند ماہ میں چینی عوام بھی ڈی سی ای پی استعمال کر سکیں گے جبکہ پیپلز بینک آف چائنا اولمپک دو ہزار بائیس میں اس ڈیجیٹل کرنسی کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب رہا تو ڈیجیٹل یوآن نوٹوں اور پےپال جیسی آن لائن پےمنٹ دونوں کو ہی ختم کر دے گا۔ ماہرین کے مطابق چین اس طرح دنیا میں امریکی غلبے کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں بھی آ جائے گا۔
ڈیجیٹل کرنسی کا ٹریک
اس وقت مارکیٹ میں موجود بٹ کوئن، لائٹ کوئن یا دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کی قدر تیزی سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے لیکن چینی ڈیجیٹل کرنسی کی قدر یوآن کی قدر کے برابر ہی رہے گی۔ یعنی ڈی سی ای پی کوئن ایک مستحکم کرنسی ہو گا۔
یوآن کی طرح یہ ڈیجیٹل کوئن بھی چین کا مرکزی بینک ہی جاری کرے گا۔ لیکن یوآن کے برعکس چینی حکومت ہر ایک ڈیجیٹل کوائن کو ٹریک کر سکے گی کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہے؟ چین کے کمرشل بینک ڈی سی ای پیز کو اپنے صارفین میں تقسیم کریں گے۔ صارفین اس ڈیجیٹل کرنسی کو اپنے بینک اکاؤنٹس سے اپنے ڈیجیٹل والٹس یا کرنسی ایپس میں ڈاؤن لوڈ بھی کر سکیں گے یا پھر یہ اے ٹی ایم سے بھی ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں ٹرانسفر ہو سکے گی۔
اس ڈیجیٹل کرنسی سے ایک عام صارف اپنے موبائل کا صرف ایک بٹن دباتے ہی ادائیگی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ اس طرح ابھی تک ادائیگیوں کے سلسلے میں علی پے یا پےپال جیسی تیسری پارٹیوں کا کردار بھی ختم ہو جائے گا۔
امریکی اجارہ داری کا خاتمہ؟
چین میں موبائل فون سے ادائیگیوں کا سلسلہ اب بھی موجود ہے اور یہی عادت ڈیجیٹل یوآن کو رائج کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔ یہ نہ صرف صارفین کے لیے آسان طریقہ ہے بلکہ کمیونسٹ حکومت کو بھی اس سے فوائد حاصل ہوں گے۔
جرمنی کی کونراڈ آڈےناؤر فاؤنڈیشن کے چینی ڈیجیٹل کرنسی سے متعلق پروجیکٹ منیجر الیکسانڈر باڈن ہائم کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس طرح چینی حکومت ڈومیسٹک فنانشل ٹرانزیکشنز پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لے گی۔
ان کے مطابق اس طرح چین کو دیگر ممالک پر برتری حاصل ہو جائے گی کیوں کہ وہ اس ٹیکنالوجی میں مزید نئے طریقے متعارف کرانے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ باڈن ہائم کہتے ہیں، ''چین ادائیگیوں سے متعلق اپنا ایک بین الاقوامی نظام تیار کرنے میں بھی مصروف ہے، جو سوِفٹ نظام کا مقابلہ کر سکے گا۔‘‘ اب تک دنیا میں فنانشل ٹرانزیکشنز امریکی ڈالر پر مبنی سوِفٹ نظام کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر چینی ڈیجیٹل نظام سامنے آیا تو پھر یہ ادائیگیاں ڈیجیٹل یوآن کی بنیاد پر ہوا کریں گی۔
باڈن ہائم کا کہنا تھا، ''یہ وقت بہت اہم ہے۔ اس وقت چین اور امریکا کے راستے ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں۔‘‘
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق اس وقت مرکزی بینکوں کے غیر ملکی زرمبادلہ کے 60 فیصد سے زیادہ ذخائر امریکی ڈالر میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بینک ڈالر میں کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یورو ہے، جس کے مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں میں زرمبادلہ کے ذخائر تقریباﹰ بیس فیصد کے قریب بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان: معاشی بے یقینی اور کریپٹو کرنسی کے استعمال میں اضافہ
ماہرین کے مطابق اگر ڈیجیٹل یوآن مرکزی بینکوں تک آیا تو پھر بینک اسی کرنسی میں کاروبار کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ڈی سی ای پی کیوں کہ چین کا مرکزی بینک جاری کرے گا تو عالمی منڈیوں میں اس کا اثر و رسوخ بھی بڑھ جائے گا۔
ڈیجیٹل کرنسیوں کی عالمی دوڑ
ایسی بہت سی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے لازمی نہیں کہ چین عالمی سطح پر ڈیجیٹل کرنسی لیڈر بن کر ابھرے۔ یورپی مرکزی بینک نے دو اکتوبر کو اعلان کیا کہ وہ یورپی یونین میں ڈیجیٹل یورو لانچ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ دوسری جانب فیس بک لبرا کوئن بھی متعارف کرا چکا ہے۔ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نجی سطح پر اپنے 2.7 بلین صارفین کو یہ کرنسی پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ منصوبہ سامنے آنے کے بعد دنیا بھر کے مالیاتی ریگولیٹرز کی طرف سے اس کی مذمت کی گئی تھی۔ ڈیجیٹل کرنسی کی دوڑ میں کون فاتح ہو گا، یہ تو مستقبل ہی بتائے گا لیکن موجودہ صورتحال میں چین میں بھی نوٹوں کی سرکولیشن فی الحال جاری رہے گی۔
جو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ مستقبل ڈیجیٹل کرنسی کا ہے اور یہ کرنسی ہر قسم کے کاروبار اور شعبہ زندگی پر اثر انداز ہو گی۔
کرسٹی پلیڈسن / امتیاز احمد / م م