دنیا میں نیو لبرل آرڈر کا بحران
28 جون 2020پہلی بڑی تبدیلی یہ تھی کہ عالمی سرمایے کو بلا روک ٹوک پوری دنیا میں کاروبار کی آزادی مل گئی۔ اگلی چند دہائیوں میں اشیائے صرف کی صنعتیں، اور سروسز چین، جنوب مشرقی ایشیا اور ہندوستان منتقل ہو گئیں۔ ان ممالک میں مزدوروں کی اجرتیں مغربی ممالک کے مقابلے میں دسواں حصہ یا اُس سے بھی کم تھیں۔ یہ منافع کمانے والی کارپوریشنز کے لئے ایک سہانا سپنا تھا۔ اب سلے ہوئے کپڑے، جوتے، الیکٹرانکس، سافٹ وئیر، سیل فون سب سمندر پار بننے لگیں اور لاکھوں نوکریاں بھی وہاں منتقل ہو گئیں۔ نیویارک میں لیموزین بلانی ہو یا جرمنی میں ہوٹل بُک کروانا ہو تو فون کال چُنائے کے راستے واپس امریکہ یا یورپ پہنچتی تھی۔ دنیا واقعی ایک چھوٹا گاؤں بن گئی۔
اب امریکا اور یورپ میں بکنے والی اکثر چیزیں باہر سے بن کر آتی تھیں۔ جو کارپوریشنیں یہ کاروبار کر رہی تھیں، وہ ٹیکس بچانے کے لئے حکومتوں کو دھمکاتی تھیں کہ زیادہ ٹیکس لگایا تو ہم سرمایہ نکال لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا منافع بلا ٹیکس سہولت دینے والی پناہ گاہوں میں جمع کرانا شروع کر دیا- منافع کی بھرمار اور ٹیکس کی آمدنی کی شدید کمی کے تین گہرے اثرات ہوئے۔ دولت کی تقسیم میں ناہمواری پیدا ہوئی، دولت مند امیر سے امیر تر ہونے لگے۔ ٹیکسوں میں کمی کی وجہ سے ویلفئیر کے پروگراموں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ اور مال و دولت کے بل بوتے پر، ممتاز امریکی ماہر معیشت جیفری سیکس کے مطابق امریکی کارپوریشنوں نے سیاستدانوں کی وفاداریاں خریدنا شروع کر دیں اور کرپشن امریکی سیاست میں سرایت کر گئی۔
’پیپلز پاور‘: انڈونیشیا میں نئی اقتصادی تحریک
اسی طرح کی تبدیلیاں یورپی سیاست میں بھی شروع ہوئیں اور نصف صدی سے قائم فلاحی ریاست کے نظام کی بنیادیں ہلنا شروع ہو گئیں۔ مغربی فلاحی ریاستیں، جو شہریوں کے حقوق کی پاسبان تھیں، اب سرمایہ داروں کی ایک چھوٹی سی ٹولی کے ہاتھوں یرغمال بن گئیں۔
مغربی ریاستوں کے عوام سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دھوکے اور جھوٹ کی بنیاد پر شروع کی جانے والی جنگوں کے نتیجے میں سرد جنگ کے خاتمے کے ثمرات سے بھی محروم ہو گئے۔ بے روزگاری، آمدنی میں کمی، تعلیم کے حصول کے لئے گئے قرضوں کے بوجھ اور فلاحی پروگراموں میں کٹوتی نے شہریوں اور ریاستوں کے درمیان اور محروم طبقات اور معتدل مزاج سیاست دانوں کے درمیان بد اعتمادی کی ایک گہری خلیج پیدا کر دی ہے۔
امریکہ بھر میں وال اسٹریٹ پر قبضے کی گونج
یہ ایک تشویش ناک بحران ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف ووٹروں نے انتہا پسندانہ قوم پرستی اور تعصب کی سیاست کا ڈھول پیٹنے والے سیاست دانوں کو حکومتوں میں لانا شروع کیا ہے۔ اور ساتھ ہی دو نئے بحرانوں، کورونا وائرس اور جارج فلوئڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت، کے بعد لوگوں نے خاص طور پر ہر رنگ، نسل، جنس اور طبقے کے نوجوانوں نے مل کر نیو لبرل آرڈر کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ سیاستدانوں اور پولیس افسروں نے علامتی طور پر گھٹنے ٹیک کر اپنی کھال بچانے کی کوشش کی ہے۔
مغربی ریاستیں اپنا ٹیکس لگانے کا اختیار بحال کئے بغیر اور غلاظت کی حد تک دولت مند سرمایہ دار طبقے پر منصفانہ ٹیکس لگائے بغیر نہ جمہوریت کو بچا سکتی ہیں اورنہ ہی کرہ ارض اور سرمایہ دارانہ نظام کو۔ اس مرض کی تشخیص جتنی آسان ہے، اس کا علاج اتنا ہی مُشکل۔ اس کے لیے جو قیادت چاہیے، وہ اس وقت تک نظروں سے اوجھل ہے۔