دنیا کو تبدیل کرنے والی پانچ جرمن ایجادات
’تھرماس‘، ’ٹوتھ پیسٹ‘ ’پاور ڈرِل‘ اور ’وال پلگ‘ یہ تمام اہم ایجادات جرمنی میں ہوئیں۔
وال پلگ
بالخصوص تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والے وال پلگ بہت پہلے ہی ایجاد ہو چکے تھے لیکن یہ مؤثر نہیں تھے۔ تاہم سن 1958 میں جرمن موجد آرتھر فشر نے ان پلگوں کی ساخت بدل دی اور ان میں ’دانت‘ لگا دیے۔ یوں جب انہیں پیچ کس سے کسا گیا تو یہ مضبوط شکل اختیار کر گئے۔ یہ طریقہ کار اب ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو درست حالت میں لانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تھرماس فلاسک
انیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی میں گلاس کے برتن بنانے میں مہارت رکھنے والے رائنہولڈ بیرگر نے ایسے برتن بنانے شروع کر دیے تھے، جن میں لیکوڈ گیسوں کو اسٹور کیا جاتا تھا تاکہ انہیں ٹرانسپورٹ کیا جا سکے۔ اسی سائنسی اصول کے تحت انہوں نے ایک نیا فلاسک ایجاد کیا، جو آج کل لوگوں کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ بیرگر نے سن 1903 میں اس ایجاد کے حقوق اپنے نام کرا لیے تھے۔
شپیگیٹی آئس کریم
داریو فونٹینلا نے جرمن شہر من ہائم میں پہلی مرتبہ شپیگیٹی آئس بنا کر سب کو حیران کر دیا۔ اس کے لیے انہوں نے شیٹزل میکر استعمال کیا، جس سے خاص قسم کے نوڈلز بنائے جاتے ہیں۔ سن 1969 میں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ تجربہ ونیلا آئس کریم کے ساتھ کیا۔ اسٹرابری کے رس اور پسے ہوئے باداموں کی آمیزیشن سے بنی یہ شپیگیٹی آئس کریم اب بھی جرمنی بھر میں انتہائی مقبول ہے۔
پاور ڈرِل
جرمنی کی ’فین کمپنی‘ میں کام کرنے والے دو ملازمین ہاتھوں کی مدد سے ڈرل کرتے تھے لیکن انہوں نے اس کام کو آسان بنانے کی خاطر ’ڈرل چک‘ کے ساتھ ایک چھوٹی سی موٹر لگا دی۔ یوں انہیں سوراخ کرنے کی خاطر اضافی قوت لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ ایمل فین نے اس ایجاد کی اہمیت کو بھانپ لیا اور اسی اصول کے تحت پہلی ڈرل مشین بنا ڈالی۔ یہ ایجاد اب گھر گھر موجود ہے۔
ٹوتھ پیسٹ
سن انیس سو سات میں ڈریسڈن کے فارمسٹ اوٹومار فان مائن بُرگ نے تجرباتی طور پر قدرتی اجزا سے ایک پیسٹ تیار کی، جو دراصل دانتوں کے درد میں مبتلا افراد کے لیے ایک دوا تھی۔ تاہم جلد ہی یہ معمولی تبدیلی کے ساتھ عام استعمال کے دستیاب کر دی گئی۔ اگرچہ اب مارکیٹ میں دانت صاف کرنے والی بہت سی مصنوعات عام ہو چکی ہیں لیکن فان مائن برگ کی Chlorodont نامی ٹوتھ پیسٹ کو ان سبھی مصنوعات کی ’ماں‘ قرار دیا جاتا ہے۔