دنیا کی طاقتور افواج کے لیے جبوتی اس قدر اہم کیوں؟
4 اپریل 2016جبوتی کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی بندرگاہ دنیا کے مصروف ترین شِپنگ راستوں بحیرہ احمر اور نہر سویز کے دروازے پر واقع ہے۔ افریقہ اور عرب کے درمیان چمکتے ہوئے پانیوں میں امریکا ان دنوں فوجی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہے اور ایک فرانسیسی جنگی جہاز بھی ان مشقوں میں شریک ہے۔ قرن افریقہ کے اس ملک کے قصبے ایرٹرا کے قریب پانچ سو فرانسیسی فوجیوں کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں کی ان جنگی مشقوں کا مقصد دونوں ملکوں کی عسکری استعداد بڑھانا ہے۔
فرانس کی اس سابقہ کالونی کی ایک سرحد صومالیہ سے لگتی ہے جبکہ اس کے بالکل دوسری طرف یمن واقع ہے۔ تقریباﹰ آٹھ لاکھ نفوس پر مشتمل اس ملک میں متعدد بڑی طاقتیں اپنے فوجی اڈے قائم کر چکی ہیں۔ اس کی بندرگاہ کو کنٹرول کرنے سے دنیا کے مصروف ترین شپنگ راستوں بحیرہ احمر اور نہر سویز کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی افواج کے کمانڈر جنرل فلپ مونٹوسیو کہتے ہیں، ’’یہی وجہ ہے کہ فرانس آج وہاں پر ہے اور بہت سی بین الاقوامی طاقتیں جبوتی میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ظاہر ہے امریکی بھی وہاں موجود ہیں، جاپانی بھی، اطالوی بھی اور چینی بھی جبکہ مستقبل قریب میں سعودی عرب بھی وہاں جائے گا۔‘‘
چین نے ابھی چار ماہ پہلے ہی جبوتی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت وہاں وہ ’بحری بیس‘ قائم کر سکے گا اور اس کے وہاں دس ہزار فوجی قیام کر سکیں گے۔ خطے میں چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے وہ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ جبوتی وہ پہلا ملک ہو گا ، جہاں چین اپنی سرحدوں سے باہر مستقل بنیادوں پر فوجی تعینات کرے گا۔
افریقہ میں امریکا کا واحد مستقل فوجی اڈہ بھی اسی ملک میں ہے۔ اسی فوجی اڈے کو استعمال کرتے ہوئے امریکا یمن اور صومالیہ میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں اور ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکا اس فوجی اڈے کے عوض سالانہ جبوتی حکومت کو تقریباﹰ ساٹھ ملین ڈالر فراہم کرتا ہے۔
یورپی اور دیگر بین الاقوامی بحری افواج بھی ہمسایہ ملک صومالیہ میں قزاقی کے خلاف جنگ میں بنیادی طور جبوتی کی بندرگاہ کو استعمال کر رہی ہیں۔ یورپی یونین کی فورسز کے مطابق سن 2011 میں صومالی قزاقوں نے 176 حملے کیے تھے جبکہ گزشتہ برس کوئی ایک حملہ بھی نہیں کیا جا سکا۔ جبوتی سے تیس کلومیٹر دور خلیج عدن کے کنارے خانہ جنگی کا شکار یمن واقع ہے، جہاں سعودی عرب اور ایران اپنی پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چین اپنے بحری اڈے کے علاوہ بھی اس ملک میں متعدد ترقیاتی منصوبے بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان منصوبوں کے تحت چین جبوتی کے ایک دوسرے ہمسایہ ملک ایتھوپیا، جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے، کی مارکیٹ تک بھی پہنچنا چاہتا ہے۔
مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی ’’گریٹ گیم‘‘ میں انٹری جبوتی کے لیے پر خطر بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس طرح جبوتی کے اپنے روایتی حلیف ملکوں کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی آئے گی، جس کا مجموعی منظر نامے پر اثر پڑے گا۔