دنیا کی مائیں، ماؤں کی دنیا
ایک ماں کے حالات زندگی کا انحصار اُس معاشرے پر ہوتا ہے، جس میں وہ رہتی ہے۔ اس بات کا اندازہ ’سیو دی چلڈرن‘ کی اُس رپورٹ سے بھی ہوتا ہے، جو ’ماؤں کے عالمی دن‘ سے پہلے شائع کی گئی تھی۔
فن لینڈ، ایک مثال
’سیو دی چلڈرن‘ کی سالانہ رپورٹ میں گزشتہ کئی برسوں سے فن لینڈ پہلے نمبر پر آ رہا ہے۔ اس ملک میں بچوں اور ماؤں کے لیے سرکاری نظام صحت بھی مثالی ہے۔ خواتین کی سماجی حیثیت، تعلیم اور آمدنی بھی بہتر ہے۔ وہاں قبل از وقت بچے کی پیدائش کی صورت میں زچہ و بچہ کا انفرادی سطح پر خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔
جرمنی میں ماؤں کی تعداد بہت کم
جرمنی بھی بچوں اورماؤں کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جرمنی کا شمار دنیا کے اُن دس ملکوں میں ہوتا ہے،جہاں پیدائش سے پہلے، پیدائش کے وقت اور بعد میں ایک ماں کی اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ لیکن یورپی یونین کے مقابلے میں اس ملک میں بچوں کی شرح پیدائش اب بھی کم ترین ہے۔
چین میں ماں بننے کا نیا رجحان
تیس برسوں بعد چین نے ’ ون چائلڈ یا ایک بچہ پالیسی‘ میں نرمی کی ہے۔ اُن جوڑوں کو، جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں، دو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ پہلے ’ایک بچہ پالیسی‘ کی وجہ سے اکثر و بیشتر بچی کی صورت میں حمل ضائع کرا دیا جاتا تھا۔ کئی دیگر ملکوں کی طرح چینی خاندانوں میں بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
زیادہ سے زیادہ مائیں بیمار
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے اچھی خبر یہ ہے کہ 1990ء کے بعد سے دنیا بھر میں بچے کی پیدائش کے وقت ماؤں کی ہلاکتوں میں پینتالیس فیصد کمی آئی ہے۔ بُری خبر یہ ہے کہ اب بھی بچے کو جنم دینے کے عمل کے دوران موت کے مُنہ میں چلی جانے والی ماؤں کا ایک تہائی حصہ ذیابیطس، اور موٹاپے کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوتا ہے۔ انہیں مختلف تہذیبوں کی علامت سمجھی جانے والی بیماریاں بھی کہا جاتا ہے۔
سب سے خطرناک افریقہ
سب سے زیادہ مائیں جنوبی صحارا کے افریقی ملکوں میں ہلاک ہوتی ہیں۔ وجوہات میں مسلح تنازعات بھی شامل ہیں۔ اس معاملے میں کانگو کو خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کو مسلح جنگجو ہونے کی وجہ سے بہت سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین جنسی تشدد، اغوا اور ایچ آئی وی سے متاثر ہوتی ہیں۔
بچوں کے ہاں بچے
کم عمری میں حاملہ ہونا خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نائجیریا میں نصف سے زائد خواتین اٹھارہ برس کی عمر سے پہلے ماں بن جاتی ہیں۔ بھارت میں بھی لڑکیوں کی شادی بہت جلد کر دی جاتی ہے۔ دیگر صنعتی ملکوں کے مقابلے میں امریکا میں کم عمری میں ماں بننے والی خواتین کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں یورپ میں برطانیہ پہلے نمبر پر ہے۔
قدرتی آفات اور مائیں
فلپائن کے تباہ کن طوفان ہیان کے فوراﹰ بعد ایک خاتون نے انتہائی عجلت میں ایک بچے کو جنم دیا۔ سیو دی چلڈرن کے مطابق کسی بھی قدرتی آفت کی زد میں آنے والے خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
اموات کے خلاف دائیوں کا کردار
جن غریب ملکوں میں بہتر نظام صحت نہیں ہے، وہاں مائیں سب سے زیادہ بچے کی پیدائش کے وقت ہلاک ہوتی ہیں۔ افغانستان کا شمار کئی برسوں سے دنیا کے اُن دس ملکوں میں ہوتا رہا ہے جہاں بچے کی پیدائش کے وقت ماؤں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ تاہم وہاں دائیوں کا تربیتی پروگرام کی کامیابی نے صورتحال میں بہت بہتری لائی ہے۔ اس کے علاوہ ملک گیر سطح پر حاملہ خواتین کو ٹیکے لگانے کی مہم چلائی گئی ہے۔
ماؤں اور بچوں کے لئے بہتری کی امید
دنیا کے گیارہ ترقیاتی ممالک نے ماؤں کی اموات سے متعلق اقوام متحدہ کے ہزاریا اہداف تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ زچہ و بچہ کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ’سیو دی چلڈرن‘ بہت سے پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ تنظیم دنیا بھر میں بہتر طبی دیکھ بھال، عورتوں کے لیے اچھی تعلیم کے مواقع اور ان کے سماجی تحفظ کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔