بحران میں گھِری عالمی معیشت کو چین کیوں نہیں بچانے والا
13 مئی 2023ایک ایسے وقت میں جب دنیا ایک اقتصادی بحران کے دہانے پر کھڑی ہے، مغربی پالیسی ساز توقع کر رہے ہیں کہ 2008ء کے اقتصادی بحران سے دنیا کو نکلنے میں مدد دینے والا ملک چین اس بار بھی اپنی سرمایہ کاری سے ویسا ہی کردار ادا کرے گا مگر حالات کچھ مختلف شکل اختیار کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس دسمبر میں تین سالہ زیرو کووڈ پالیسی چھوڑنے کے بعد سے دنیا کی یہ دوسری سب سے بڑی معیشت ابھی تک بظاہر پوری توانائی کے ساتھ اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن دکھائی نہیں دے رہی۔
چین کی درآمدات رواں برس اپریل میں 7.9 فیصد کی بڑی گراوٹ کا شکار ہوئیں جبکہ برآمدات میں نمو کا تناسب بھی کم ہو کر 8.5 فیصد رہا۔ مارچ میں یہ شرح 14.8 فیصد تھی۔
دوسری طرف ملک میں بینکوں سے لیے جانے والے قرضوں کی شرح میں بھی کمی واقع ہوئی۔ اپریل میں بینکوں کی طرف سے 718.8 بلین یوآن (104 بلین ڈالر) کے قرضے جاری کیے گئے جو مارچ کے مقابلے میں 20 فیصد کم تھے۔
کیا چین کا سنہرا دور ختم ہو گیا؟
’’چین کی معیشت ڈوبنے والی تو نہیں ہے مگر وہ اس طرح سے بھی ترقی نہیں کر رہی جیسی وہ اپنی سنہری دہائی یعنی 2010ء کی دہائی میں کر رہی تھی اور جب یہ شرح نمو دو عددی تھی۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہنا تھا اسٹیو سانگ کا جو لندن میں قائم اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے چائنہ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔
چین کی اقتصادی ترقی سے دنیا کے دیگر ملکوں میں سست ہوتی معیشتوں کو پٹری پر چڑھانے میں مدد ملتی، جہاں کے مرکزی بینک گزشتہ 12 سے 18 ماہ کے دوران اپنی پالیسیوں کو سخت بنانے میں لگے ہیں۔
2008/09 کے اقتصادی بحران کے بعد چین کی طرف سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے عالمی معیشت کو سنبھلنے میں مدد ملی۔ مگر اس اقدام کے سبب چین قرضوں کے ایک پہاڑ کے نیچے آ گیا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ متنبہ کر چکا ہے کہ چینی حکومت پر صرف مقامی قرضہ ریکارڈ 66 ٹریلین یوآن تک پہنچ چکا ہے جو ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار کے نصف کے برابر ہے۔
سانگ کے بقول وہ مغربی پالیسی ساز جو دعا کر رہے ہیں کہ چین ان کی معیشت کی بحالی میں مدد کرے، انہیں ’’نئی سیاسی اور اقتصادی حقیقتوں کو دھندلے چشموں کے بغیر دیکھنے‘‘ کی ضرورت ہے۔
تائیوان کے لیے خطرہ، چین کو الگ تھلگ کرنے کا سبب
چین کی طرف سے تائیوان پر حملہ کرنے کا خطرہ مغربی ممالک کے لیے خدشات کا باعث بنا ہوا ہے۔ بیجنگ کی طرف سے ماسکو کی طرف دوستانہ رویہ اور یوکرین پر اس کے حملے پر غیرجانبداری بھی ان نزاعی معاملات میں شامل ہیں جس نے عالمی اقتصادی تعاون کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
سنگاپور کے INSEAD بزنس اسکول کے معاشیات کے پروفیسر پُشان دت کے بقول، ’’تائیوان کے معاملے پر تناؤ میں اضافہ یا جنگ ایک بڑی تبدیلی کی وجہ بنے گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’بین الاقوامی کمپنیاں چین سے نکل جائیں گی، اس کی برآمدی منڈیاں بند ہو جائیں گی اور اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔‘‘
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تجارتی تناؤ، صدر جو بائیڈن کے دور میں بھی موجود ہے۔ جوابی ٹیکسز لگانے کی روش کے سبب امریکہ نے کئی ایک چینی کمپنیوں اور شخصیتوں کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ واشنگٹن نے سیمی کنڈکٹر اور مصنوعی ذہانت کی اپنی ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو روک رکھا ہے، جس کی وجہ قومی سلامتی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
اس صورتحال میں یورپین مرکزی بینک کی صدر کرسٹین لاگارڈ نے متنبہ کیا تھا کہ عالمی معیشت چین اور امریکہ کی سربراہی میں حریف بلاکس میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ترقی متاثر ہو گی اور افراط زر میں اضافہ ہو گا۔
شی جن پنگ معیشت کو روکے ہوئے ہیں
لندن میں قائم اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے چائنہ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اسٹیو سانگ کے مطابق چینی صدر شی جِن پنگ واضح طور پر چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت مزید متحرک، مضبوط اور اختراعی ہو لیکن ’’ان کی پالیسیوں کا اکثر الٹا اثر ہوتا ہے۔‘‘
سانگ کے بقول، ’’شی کی طرف سے اقتدار پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے اور غلطیوں کو تسلیم نہ کرنے سے، چین کے ٹیکنوکریٹس کے لیے عملی طور پر یہ ناممکن ہو گیا ہے کہ وہ معیشت کو توانائی فراہم کرنے کے لیے ضروری ردوبدل کر سکیں۔‘‘
ساتھ ہی آئی ایم ایف کی طرف سے پیش گوئی کی گئی ہے کہ چین بدستور آئندہ پانچ برس تک عالمی اقتصادی نمو کا سب سے بڑا محرک رہے گا، مجموعی عالمی نمو کے 22 فیصد کے ساتھ، جبکہ اس کے مقابلے میں عالمی نمو میں امریکہ کا حصہ 11.3 فیصد ہو گا۔
مغرب کی طلب میں کمی کے سبب چینی برآمدات متاثر ہوں گی، لیکن اس کی ملکی معیشت میں پھر بھی بہتری کے امکانات ہیں کیونکہ تین سالہ کووڈ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد داخلی سطح پر طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چینی صارفین وبا کے دوران 2.6 ٹریلین ڈالر جمع کر چکے ہیں۔ لہٰذا توقع ہے خدمات کا شعبہ کچھ وقت تک اس بوجھ کو برداشت کر لے گا۔‘‘
نِک مارٹن (ا ب ا/ک م)