دنیا کے پانچ بڑے ماحولیاتی مسائل اور اُن کے ممکنہ حل
12 اکتوبر 20161. آلودہ ہوا اور موسمیاتی تبدیلیاں
مسئلہ: فضا میں اور سمندری پانیوں میں ضرر رساں کاربن گیسیں بڑھ رہی ہیں۔ اس باعث فضا اور سمندروں کے پانی کا گرم رہنا بلاشبہ ایک اچھی چیز ہے کہ اس کے بغیر ہماری دھرتی منجمد ہو کر رہ جائے لیکن معدنی ایندھن، زراعت کے لیے جنگلات کی کٹائی اور صنعتی سرگرمیوں کے باعث کاربن گیسوں کی مقدار، جو دو سو سال قبل 280 پی پی ایم (پارٹس پَر ملین) تھی، اب بڑھ کر 400 پی پی ایم ہو چکی ہے اور بے شمار اَموات کا بھی سبب ہے۔
حل: معدنی ایندھن کی جگہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کا استعمال۔ پھر سے جنگلات اُگانا۔ زراعت کے عمل میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور صنعتی سرگرمیوں میں تبدیلی۔
2. جنگلات کا کٹاؤ
مسئلہ: زراعت کے لیے زمین کے حصول یا مویشی رکھنے کے لیے اُستوائی خطّوں کے انواع سے بھرپور جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ آج کل زمین کا تیس فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے، جن کا ایک اہم کام کاربن گیسیں جذب کرنا بھی ہے۔ ہر سال اٹھارہ ملین ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔
حل: موجود قدرتی جنگلات کا تحفظ اور ہر خطّے کے مقامی درختوں پر مشتمل جنگلات کی کاشت۔ مشکل یہ ہے کہ جنگلات زیادہ تر غریب ملکوں میں ہیں، جہاں آبادی بڑھ رہی ہے، بد انتظامی ہے اور اقربا پروری ہے۔
3. ناپید ہوتی انواع
مسئلہ: زمین ہو یا سمندر، انسان مختلف طرح کے جانوروں اور قسم قسم کی مچھلیوں کا اس حد تک زیادہ شکار کر رہا ہے کہ کئی انواع کی بقا خطرے میں ہے۔
حل: بائیو ڈائیورسٹی کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات کی تجارت پر پابندی لگائی جائے۔ مقامی آبادیوں کو شامل کیا جائے، ایسے کہ اُنہیں جنگلی حیات کے تحفظ کے سماجی اور اقتصادی فوائد بھی ملیں۔
4. زرعی زمین کی کم ہوتی زرخیزی
مسئلہ: حد سے زیادہ چَرائی، کاشتکاری کے نت نئے طریقے یا پھر ایک ہی طرح کی فصلوں کی کاشت: اقوام متحدہ کے مطابق سالانہ بارہ ملین ہیکٹر زرعی رقبے کی زرخیزی کو طرح طرح سے نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
حل: ہل چلائے بغیر بیج ڈالنا یا پھر بدل بدل کر نئی فصلیں کاشت کرنا: زمین کی زرخیزی کی بحالی کے لیے نت نئے طریقے موجود ہیں۔
5. بڑھتی آبادی
مسئلہ: بیس ویں صدی کے آغاز پر انسانی آبادی 1.6 ارب تھی، آج کل 7.5 ارب ہے، 2050ء تک دَس ارب ہو گی۔ انسانی وسائل پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
حل: خواتین کی تعلیم اور بہتر سہولتوں تک رسائی تاکہ وہ افزائش نسل کے بارے میں خود بھی فیصلے کر سکیں۔