دو براعظموں میں واقع شہر استنبول کی سیر کیجیے
تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ترکی کا شہر استنبول ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اسے ملک کا ثقافتی و اقتصادی مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس کے کنارے واقع یہ شہر دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے۔
ایا صوفیہ ( حاجیہ صوفیہ) ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے، جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کر کے اسے عجائب گھر بنا دیا۔
سلطان احمد مسجد کو بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے، جس کے چھ مینار ہیں۔ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی۔
استنبول کا تاریخی باسفورس پُل، جسے پندرہ جولائی کو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے دوران مزاحمت کرنے والے شہریوں کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ’’شہدائے پندرہ جولائی پُل‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔ یہ شہر کے یورپی علاقے اورتاکوئے اور ایشیائی حصے بیلربے کو ملاتا ہے اور آبنائے باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔
استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا تخت ہونے کی وجہ سے اس شہر میں عثمانی دور کے بادشاہوں اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے جگہ جگہ مساجد قائم کیں۔ زیر نظر تصاویر استبول کی معروف نیلی مسجد کے اندرونی حصے کے ہے، جو ترک ہنر مندوں کی محنت اور بادشاہوں کے ذوق کا عکاس ہے۔
استنبول میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام سرکاری سرپرستی میں چل رہا ہے۔ اس نظام کے تحت میٹرو بسیں، میٹرو ٹرینیں، کشتیاں اور زیر زمیں ریل کاریں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں۔
ماضی میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے آج بھی ترکی میں جابجا اس دور کی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف تہواروں پر سلطنت عثمانیہ کے دور کی موسیقی اور دھنیں بجاتے نظر آتے ہیں۔
استبول کے مضافات میں نو چھوٹے چھوٹے جزیرے موجود ہیں، جنہیں پرنسسز آئی لینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ جزائر سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ انہیں میں سے ایک جزیرے ہیبلی ادا کا ایک ساحلی منظر
استنبول کے ایک بازار میں روایتی آئیس کریم فروش۔ یہ آئیس کریم فروش اپنے حلیے اور پھر اس سے بھی زیادہ ان کرتبوں کے لئے مشہور ہیں، جو وہ گاہکوں کو آئیس کریم پیش کرنے سے قبل دکھاتے ہیں۔
ترک کھانے بھی سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی پلیٹ میں ترکی کے مشہور اسکندر کباب نظر آ رہے ہیں۔ گائے کے گوشت سے بنے یہ کباب انتہائی لذیز ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک مخصوص روٹی کو شوربے کی تہ میں بھگو کر دہی کے ہمراہ کھایا جاتا ہے۔
ترکی کے روایتی میٹھے بھی لاجواب ہیں۔ مشہور زمانہ بکلاوے کے علاوہ فرنی، تری لیشا اور مختلف پھلوں سے تیار کیے گئے میٹھوں کا جواب نہیں۔
ترک عوام چائے کے بھی بہت ہی شوقین ہیں۔ اسی لئے باہر سے آنے والے سیاحوں کو استنبول کے مختلف بازاروں میں انواع و اقسام کی چائے کی پتیاں باآسانی مل جاتی ہیں۔