دو روزہ پاک بھارت مذاکرات کا پہلا دور مکمل
27 اپریل 2011ان مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکریٹری تجارت ظفر محمود جبکہ بھارتی وفد کی سربراہی ان کے بھارتی ہم منصب راہول کھلڑ کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز مذاکرات کے پہلے دور کے اختتام پر دونوں ممالک کے سیکریٹریوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات انتہائی دوستانہ اور خوشگوار ماحول میں ہوئے ہیں۔
پاکستانی سیکریٹری تجارت نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ 2004ء سے 2007ء کے درمیان دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے ہونے والے مذاکرات پر بھی غور کیا گیا۔ ان مذاکرات کے نتائج پرعمل کے لیے ایک موثر نظام تشکیل دینے کے لیے دونوں ممالک کے تجارت کے سیکریٹریوں کو مخلصانہ طور پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر بینک نہیں ہوں گے تو تجارت فروغ نہیں پائے گی۔ تو بینک کھولنے کا جو فیصلہ تھا، اس پر جو پیشرفت تھی، وہ پچھلے ادوار میں ہو چکی ہے۔ اب ان کے اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تشریف رکھتے ہیں تو ابھی اس بارے میں مزید بات چیت ہو گی۔‘‘
بھارت نے پاکستان کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دے رکھا ہے جبکہ پاکستان نے اب تک ایسا نہیں کیا۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم تقریبا 2 ارب ڈالر ہے۔ پاک انڈیا چیف ایگزیکٹو بزنس فورم کے سربراہ امین ہاشوانی کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ پسندیدہ ملک قرار دینا نہیں بلکہ تجارت کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں انڈیا سے یہ مذاکرات کرنے چاہیئں کہ ہمیں برابری کی بنیاد پر مواقع چاہیئں۔‘‘ انڈیا نے ہمیں پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری بہت سی مصنوعات انڈیا نہیں جا سکتیں۔
پاک بھارت تجارتی مذاکرات کے اس پانچویں مرحلے میں بھارت کو ٹیکسٹائل مصنوعات اور سیمنٹ مصنوعات کی ایکسپورٹ پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ بھارت کو بڑا ملک ہونے کے ناطے تجارت کے فروغ کے لیے دل بھی بڑا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا، ’’ریجن کے ممالک کی 80 فیصد معیشت انڈیا کے پاس ہے۔ ان کی امپورٹ کا جو طریقہ کار ہے وہ اتنا محدود ہے کہ کوئی چیز فلاں پورٹ سے آ سکتی ہے فلاں انٹری پوائنٹ سے آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے صوبوں کی اور ریاستوں کی الگ پابندیاں ہیں۔ نتیجتاً یہاں سے جو چیز جا سکتی ہے جب تک ان کی منشاء نہ ہو، وہ نہیں پہنچ سکتی۔ مثلاً بھارت میں سیمنٹ کی قلت ہے تو سیمنٹ کے لیے انڈین انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز سے منظوری لینا ضروری ہے۔ منظوری تو وہ دیتے ہیں، لیکن اسی حساب سے منظوری دی جاتی ہے جتنی وہاں پر قلت ہو۔ اس کے علاوہ پاکستان سے ٹیکسٹائل مصنوعات اور زرعی اجناس ایکسپورٹ کی جا سکتی ہیں۔ اب ان دونوں مصنوعات کے لیے انہوں نے کسٹم ڈیوٹی اور کمپوزٹ ریٹس ٹیکسٹائل پر سو فیصد لگائی ہوئی ہیں جبکہ ان کی اوسط کسٹم ڈیوٹی 15 سے 18 فیصد ہے لیکن ان دونوں اشیاء پر 90 سے 100 فیصد کسٹم ڈیوٹی ہے۔
معروف اقتصادی تجزیہ نگار شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ دو ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی نوعیت باقی معاملات سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے صرف تجارت کے فروغ سے دو طرفہ تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا، ’’اس کا مطلب ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ آہستہ آہستہ تجارت بڑھائیں، بہت زیادہ تیزی سے نہ بڑھائیں اور یہ جو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تجارت بڑھانے سے تعلقات بہتر ہوں گے، وہ غلط ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ دو ہزار پانچ میں ہماری تجارت تھی چھ سو ملین ڈالر، اب اس سے تین گنا ہو گئی ہے لیکن دشمنی بھی بڑھی ہے۔‘‘
دونوں ممالک کے درمیان کل جمعرات کو مذاکرات کا دوسرا دور ہو گا، جس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیے جانے کی توقع ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں