’دوبارہ نامزدگی معجزہ‘، شرمین عبید چنائے کا خصوصی انٹرویو
15 جنوری 2016ڈی ڈبلیو: آپ دوسری بار آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی ہیں، آپ کے اس کامیابی پر کیا تاثرات ہیں؟
شرمین عبید: آسکر کی تاریخ میں نان فکشن دستاویزی فلمز کی کیٹیگری میں مجھ سمیت صرف گیارہ خواتین نے یہ ایوارڈ جیتا ہے، لہٰذا پاکستان کی نمائندگی کرنا اور دوبارہ ایوارڈ کے لیے نامزد ہونا میرے لیے بہت ہی اعزاز کی بات ہے۔
ڈی ڈبلیو: آپکی نئی فلم ’اے گرل ان دی ریور‘ کا موضوع کیا ہے اور یہ فلم بنانے کا مقصد کیا تھا؟
شرمین عبید: پاکستان میں سینکڑوں لڑکیاں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں بلکہ اس حوالے سے تو صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں کیونکہ یہ معاملہ گھر میں ہوتا ہے اور گھر ہی میں دبا دیا جاتا ہے اور یہ واقعات کہیں رپورٹ بھی نہیں ہوتے اور ہمارے قوانین اس حوالے سے بہت کمزور ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی کیس رپورٹ بھی ہو جائے تو قانون میں بیوی بیٹی کا قتل شوہر کو معاف کر سکتی اور یہی ہوتا ہے لہٰذا غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں معافی ختم کر دینی چاہیے۔ میری فلم کی کہانی ایسی ہی ایک لڑکی کی ہے، جس کو غیرت کے نام پر مار کر نہر میں پھینک دیا جاتا ہے مگر خوش قسمتی سے وہ بچ جاتی ہے، پھر وہ کس طرح نظام سے لڑی اور پھر کس طرح نظام نے اسے شکست دے دی کیونکہ قانون میں معافی کی اجازت ہے اور لڑکی کو بھی بالآخر اپنے گھر والوں کو معاف کرنا پڑا۔
ڈی ڈبلیو: پاکستان میں دستاویزی فلموں کا اسکوپ بہت کم ہے جس کے باعث ڈاکومینٹریز کا معیار بہت اچھا نہیں ہوتا تو آپ کس طرح اپنی فلم کا مقصد حاصل کر پائیں گی؟
شرمین عبید: پاکستان میں ٹی وی پر ڈاکومینٹریز بہت کم چلتی ہیں اور سینما گھروں میں تو بالکل ہی نہیں چلتیں۔ لوگ اپنی فلمیں انٹر نیٹ پر ہی اَپ لوڈ کرتے ہیں یا پھر بیرون ملک فلم فیسٹیولز کے لیے بھیجتے ہیں۔ یا پھر فلمیں یونیورسٹیز میں چلائی جاتی ہیں مگر سینٹ نے 2015ء میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور کیا تھا، بات اس سے آگے نہیں بڑھی اور قانون کے تحت نوّے دن بعد بل ڈیفر ہو گیا، تو ہماری مہم ہے کہ اس بل کو منظور ہونا چاہیے۔
ڈی ڈبلیو: اس ایک خاص جرم پر ہی اتنا فوکس کیوں، پاکستان میں تو ہر طرح کا جرم ہوتا ہے اور ہر جرم کے لیے کوئی نہ کوئی قانون بھی موجود ہے؟
شرمین عبید: غیرت کے نام پر قتل غلطی سے نہیں ہوتے۔ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیے جاتے ہیں لہٰذا اس میں معافی کی گنجائش ہونی ہی نہیں چاہیے کیونکہ اگر کسی علاقے میں چار افراد نے عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا ہے اور وہ جیل نہیں گئے تو پانچویں شخص کو تو جرم کرنے کے لیے حوصلہ ہی ملے گا۔ غیرت کے نام پر قتل ہمارے مذہب اور تہذیب دونوں کے خلاف ہے، ہمارے مذہب میں تو لڑکی اگر نکاح کے وقت ہچکچائے تو نکاح ہی جائز نہیں ہے، جو مذہب خواتین کو اتنی عزت اور اتنے حقوق دیتا ہے، وہ کیسے عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی اجازت دے گا۔
ڈی ڈبلیو: دوسری بار آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونا زیادہ اہم ہے یا پھر غیرت کے نام پر قتل کا بل منظور کرانا؟
شرمین عبید: میرا جواب تو بل کے حق میں ہے کیونکہ آسکر تو میرے پاس پہلے ہی ہے۔ ٹی وی کا اثر پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔ ہر آدمی ٹی وی دیکھتا ہے۔ لوگ مجھے اور میری ٹیم کو دور دراز علاقوں میں جاننے پہچاننے لگے ہیں اور ٹی وی کے ذریعے ہی میرا مقصد حاصل ہو رہا ہے۔ فلم آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی ہے تو ہر اخبار اور ٹی وی چینل اس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے انہتائی مثبت قدم اٹھایا ہے، وہ اس فلم کی پہلی اسکریننگ وزیر اعظم ہاؤس میں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز آئیں اور پاکستان پر موجود اس دھبے کو ختم کیا جائے۔ وزیر اعظم کا یہ قدم دنیا بھر کے لیے ایک بہت مثبت پیغام ہے کہ ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ غیرت کے نام پر قتل ہمارے مذہب اور تہذیب کا حصہ ہی نہیں ہے۔
ڈی ڈبلیو: فلم پر بیرون ملک سے رسپانس کیا ہے، بطور مسلمان خاتون دوسری بار آسکر کے لیے ریڈ کارپٹ پر چہل قدمی کا سوچ کر کیسا محسوس کرتی ہیں؟
شرمین عبید: بین الاقوامی کمیونٹی سے غیر متوقع رسپانس مل رہا ہے۔ ایک مسلمان خاتون ہونے کے باعث بہت فخر کی بات ہے کہ مجھے دوسری بار پاکستان کی مثبت شکل دکھانے کا موقع ملے گا۔ مگر میرا مقصد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل کی منظوری ہے، بہت سے لوگوں نے اس پر کام کیا ہے، سینٹ سے منظور ہو چکا ہے۔ میری کوشش ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو اور یہ بل منظور ہو جائے۔