دوسری عالمی جنگ: افسوس ہے، لیکن معافی نہیں مانگی
15 اگست 2015جاپان میں یہ تقریبات ایک ایسے موقع پر منعقد ہو رہی ہیں جب چین اور جنوبی کوریا کی جانب سے ٹوکیو حکومت پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز جاپان کے قدامت پسند وزیر اعظم شینزو آبے نے ایک یادگاری تقریب کے دوران کہا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی لامحدود تباہی اور لوگوں کو پہنچنے والی تکلیف پر انہیں شدید افسوس ہے۔ آبے نے اس موقع پر مزید کہا کہ جاپان کی مستقبل کی نسلوں کو جاپان کی جنگی کارروائیوں پر شرمندہ ہونے یا معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یہ تقریب 1945ء میں اتحادی ممالک کے سامنے جاپانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے سات عشرے پورے ہونے کے موقع پر منعقد ہوئی تھی۔
شینزو آبے کے اس بیان کو جہاں امریکی تائید حاصل ہوئی، وہیں چین اور جنوبی کوریا نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان دونوں ممالک کا موقف ہے کہ شینزو آبے ماضی کی جاپانی جارحیت پر ابھی تک معافی نہیں مانگ سکے ہیں۔ بیجنگ اور سیئول کا کہنا ہے کہ ٹوکیو حکومت کو دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی جارحیت سے متاثر ہونے والے تمام ممالک اور عوام سے باقاعدہ معافی مانگنی چاہیے۔ جنوبی کوریا کی صدر پَک گُن یَے نے کہا کہ جاپان کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ایشیائی خواتین کو جنسی غلام بنانے کے معاملے کو حل کرنا چاہیے۔
اُس دور میں فلپائن بھی جاپان کا شدید حریف ملک تھا تاہم اب منیلا حکومت جاپان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ برطانیہ نے بھی شینزو آبے کے بیان کو سراہا ہے جبکہ آسٹریلوی وزیر اعظم ٹونی ایبٹ کے مطابق، ’’آبے کے بیان کے بعد دوسرے ممالک کو بہتر مستقبل کے جاپانی عزم کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔‘‘ اسی دوران آج ہفتے کے روز جاپانی شہنشاہ آکی ہیٹو نے کہا کہ اُنہیں اُس جنگ پر’گہرا پچھتاوا‘ ہے، جو ٹوکیو نے اُن کے والد ہیروہیٹو کے نام پر لڑی تھی۔
آج ہفتے کے روز جاپان کے تقریباً ساٹھ سیاستدانوں نے ’یاشوکونی‘ یادگار کا بھی دورہ کیا، جو جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے جاپانیوں کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے۔ چین اور جنوبی کوریا کے مطابق یاشوکونی میں ایسے افراد کو بھی یادگاری اعزاز بخشا گیا ہے، جو ایشیائی خواتین کی آبروریزی اور جنگی جرائم میں ملوث تھے۔