دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن صدر بننے والی شخصیات
جرمن صدر کا انتخاب وفاقی کنوینشن کرتا ہے۔ جس میں وفاقی پارلیمنٹ کے اراکین کے علاوہ ریاستی پارلیمانوں سے بھی اراکین حصہ لیتے ہیں۔ چالیس برس سے زائد عمر کا کوئی بھی جرمن شہری صدر بننے کا اہل ہے۔
فرانک والٹر اشٹائن مائر (سن 2017 سے اب تک)
موجودہ جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر اس منصب کو سنبھالنے سے قبل وزیر خارجہ بننے کے علاوہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر کے منصب کے امیدوار بھی تھے۔ ملکی صدر کے لیے انگیلا میرکل کے دورِ حکومت میں سوشل ڈیموکریٹس کے علاوہ قدامت پسند کرسچین ڈیموکریٹس نے بھی ان کی حمایت کی تھی۔
یوآخم گاؤک (سن 2012 سے سن 2017 تک)
لوتھر مسیحی عقیدے کے سابق پادری گاؤک کو شہرت سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن کے طور پر ملی تھی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد انہیں ایک آزاد سیاستدان کے طور پر سابقہ مشرقی جرمنی کی خفیہ ایجنسی اشٹازی کی دستاویزات کی نگرانی و تفتیش سونپی گئی تھی۔ ان کی سیاسی زندگی کا انحصار مطلق العنانیت کے خلاف ان کے خاندانی تجربات پر تھا۔
کرسٹیان وولف (سن 2010 سے سن 2012 تک)
اب تک جرمنی کے کم عمر ترین صدر کرسٹیان وولف تھے۔ ان کو اس تقریر کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جرمنی سے اسلام کی نسبت ویسی ہے، جیسی مسیحیت اور یہودیت کی ہے۔ جرمن ریاست لوور سیکسنی کے سابق وزیرِ اعلیٰ کو کرپشن الزمات کی وجہ سے صدر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ بعد میں اِن الزامات سے انہیں بریت مِل گئی تھی۔
ہورسٹ کوئہلر (سن 2004 سے سن 2010 تک)
ایک ماہر اقتصادیات کے طور پر ہورسٹ کوئہلر یورپی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی کے صدر رہنے کے علاوہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سربراہ بھی رہے تھے۔ انہیں منصبِ صدارت سے اس وجہ سے مستعفی ہونا پڑا کہ انہوں نے جرمن فوج کے غیر ملکی مشنز کو اس بنیاد پر ہدفِ تنقید بنایا کہ یہ جرمن پارٹنرز کے ساتھ تجارتی روابط کو استحکام دیتے ہیں۔
یوہانس راؤ (سن 1999 سے سن 2004 تک)
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان یوہانس راؤ گنجان آباد جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر اعلیٰ بھی رہے تھے۔ بطور صدر انہوں نے کئی مرتبہ گرما گرم سیاسی مباحثوں میں اپنی قوم سے کہا کہ وہ غیر ملکیوں کے لیے دروازے کھولیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ملکی عوام کے ساتھ ساتھ جرمن پاسپورٹ کے بغیر ملک میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے صدر بھی کہلانا چاہتے ہیں۔
رومان ہیرسوگ (سن 1994 سے سن 1999 تک)
جرمن سپریم کورٹ کے سابق جج رومان ہیرسوگ کی ایک بڑی شناخت سن 1997 کی وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے عوام سے کہا تھا کہ وہ متحد ہو کر شیطانی دائرے سے دور ہوں اور رکاوٹ کے عمل میں اصلاح پیدا کریں۔ انہوں نے آؤشوٹس اذیتی مرکز کو آزاد کرانے کی یادگاری برسی کی تقریب میں پولینڈ سے دوسری عالمی جنگ میں جرمن استحصال پر معافی بھی مانگی تھی۔
ریشارڈ فان وائتسیکر (سن 1984 سے سن 1994 تک)
کرسچین ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان نے نازی دور میں جرمنی سے سرزد ہونے والے جرائم کا تعین کیا تھا۔ انہوں نے آٹھ مئی کو جرمنی کے لیے یوم نجات قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بہت سارے جرمن ہولوکاسٹ کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے دور سے اس وقت تک مصالحت ممکن نہیں جب تک انہیں یاد رکھا جائے گا۔
کارل کارسٹنز (سن 1979 سے سن 1984 تک)
کرسچین ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے قدامت پسند سیاستدان کارل کارسٹنز بریمن میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد جو ایک کمرشل اسکول میں ٹیچر تھے، ان کی پیدائش سے قبل پہلی عالمی جنگ میں مارے گئے تھے۔ سن 1940 میں وہ نازی پارٹی کے رکن بنے تھے اور اس باعث ان کا صدر بننا متنازعہ تھا۔ اپنے دورِ صدارت میں وہ ہائکنگ کرتے اور لوگوں سے میل جول پسند کرتے تھے۔
والٹر شیل (سن 1974 سے سن 1979 تک)
زولنگن میں پیدا ہونے والے والٹر شیل ایک ہنر مند دست کار کے بیٹے تھے۔ نازی دور میں وہ ایک بینک کے ملازم تھے۔ جنگ کے بعد وہ ماہر معاشیات کے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ فری ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن تھے۔ وہ کھلی طبیعت کے حامل تھے اور ایک مقبول جرمن لوک گیت ’ ہوخ آؤف ڈیم گیلبن واگن‘ کی ریکارڈنگ کے لیے انہیں بہت شہرت حاصل ہوئی تھی۔
گستاف ہائنےمان (سن 1969 سے سن 1974 تک)
گستاف والٹر ہائنےمان صدر بننے سے قبل ایسن شہر کے میئر اور وزیر داخلہ اور انصاف بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے نئے سال کے موقع پر عام شہریوں کو صدارتی تقریب میں دعوت دینے کی روایت قائم کی تھی۔ ہائنےمن نے مغربی جرمن شہریوں کو حکام کے سامنے عاجزی کے اظہار کو ختم کرنے کی تلقین کی تھی تا کہ عام لوگ اپنے جمہوری حقوق جان کر قانون کی حکمرانی کا دفاع بھی کر سکیں۔
ہائنرش لُؤئبکے (سن 1959 سے سن 1969 تک)
ہائنرش لُؤبکے کا تعلق قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین سے تھا۔ انہیں صحت کے معاملات کی وجہ سے کئی ناپسندیدہ واقعات کا سامنا رہا۔ انہوں نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کی تکمیل سے تین ماہ قبل صدارت چھوڑ دی تھی کیونکہ انہیں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی دورِ حکومت میں شمولیت کے اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تھیوڈور ہوئس (سن 1949 سے سن 1959 تک)
فری ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے تھیوڈور ہوئس سوشل ڈیموکریٹ رہنما کُرٹ شوماخر کو شکست دے کر منصبِ صدارت پر براجمان ہوئے تھے۔ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سابقہ مغربی جرمنی کے پہلے صدر تھے۔ وہ صدر بننے سے قبل سیاسی معاملات کے صحافی تھے۔ وہ دوستانہ طبیعت کے حامل تھے اور یہی ان کی تکریم کی ایک اہم وجہ تھی۔