دکھ میں بھی فرق ہے، ہمارا دکھ فلسطینیوں سے زیادہ ہے: یالون
24 فروری 2016اسرائیل میں اِن دنوں یہ بحث جاری ہے کہ تشدد کی حالیہ لہر میں ہلاک ہونے کسی اسرائیلی کا دکھ اُس کے خاندان کو زیاہ ہوتا ہے یا کسی فلسطینی کی ہلاکت پر اُس کے خاندان والے زیادہ رنج و الم اور غم محسوس کرتے ہیں۔ یہ بحث ایک اسرائیلی ریڈیو پروگرام کے اینکر پرسن رازی برکائی نے شروع کی ہے۔ انہوں نے اپنے پروگرام میں کسی ناگہانی موت کے بعد فلسطینی و اسرائیلی خاندانوں کو ہونے والے رنج کا سرسری انداز میں تقابل کیا تھا لیکن بعد میں برکائی کی گفتگو اسرائیل کے کئی فورمز پر بحث کی صورت اختیار کر گئی۔ اینکرپرسن کے جواب میں یہ کہا گیا کہ کسی اسرائیلی کی ہلاکت پر اُس کے والدین یا دوسرے خاندان کے افراد کو دکھ فلسطینی خاندان سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اُس خاندان نے اپنے لڑکے یا عزیز کو کسی اسرائیلی کی ہلاکت کے لیے روانہ کیا ہوتا ہے۔
منگل 23 فروری کو حالیہ تشدد کے سلسلے میں ہلاک ہونے اسرائیلی فوجیوں کے رشتہ داروں کے اجتماع سے تقریر کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیر دفاع موشے یالون نے بھی اپنی تقریر کا موضوع برکائی کے موازنے کو بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی اور اُن کے ہمسایوں کے درمیان اس مناسبت سے رنج اور دکھ کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ موشے یالون نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسرائیلی معاشرت میں زندگی یا حیات کو اہمیت دی جاتی ہے اور ہر ایک اِس کی قدر کرتا ہے جبکہ بدقسمتی سے اِس ملک کے ارد گرد ایسے کچھ معاشرے ہیں جہاں زندگی کے مقابلے میں موت کو توقیر دی جاتی ہے۔
موشے یالون نے اپنی تقریر میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ معاشرے جو زندگی کی عزت سے آشنا ہوتے ہیں انہی کو روشن مستقبل ملتا ہے اور جو سماج موت کا متمنی ہوتا ہے، اُس کی مستقبل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار چند روز قبل اسرائیلی پولیس کے سربراہ نے بھی کیا تھا۔ انہوں نے پیر کے روز ایک اسرائیلی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ اُس میں ان کا کہنا تھا کہ جس انداز کا سوگ اسرائیل کے باسیوں میں ہے، وہ اُس سے مختلف ہے، جو اِس ملک اور لوگوں کے دشمنوں میں پایا جاتا ہے۔ پولیس چیف کے مطابق موت کے متمنی حقیقت میں زندگی کو کوئی وقعت نہیں دیتے۔
دو ہفتے قبل اسرائیلی آرمی ریڈیو کے سینیئر براڈکاسٹر رازی برکائی نے اسرائیل کی داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد ایردان کا انٹرویو نشر کیا تھا۔ اس انٹرویو میں ایردان نے کئی فلسطینی حملہ آوروں کی نعشیں ان کے ورثا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں فلسطینیوں کے جنازے سیاسی ریلی کی شکل اختیار کرتے ہوئے امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ برکائی کا اِس تناظر میں کہنا تھا کہ نعشیں نہ ملنے سے فلسطینی خاندانوں کو اتنے شدید ذہنی کرب کا سامنا ہو سکتا ہے جتنا کسی اسرائیلی خاندان کو اُن کے عزیر کی ناگہانی ہلاکت پر ہوتا ہے۔ برکائی کا یہ بھی کہنا تھا کہ موت دونوں جانب ایک جیسی کیفیت کی حامل ہے اور اِس کے بعد کا دکھ ناقابل پیمائش اور اِس کا موازانہ نہیں کیا جا سکتا۔