دھمکیاں، بلوچستان میں ریڈکراس کے دفتر بند
14 مئی 2010انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اس ادارے کے 30 کارکنوں کو، جن میں تین غیرملکی بھی شامل ہیں، اپنی نقل و حرکت محدود رکھنے کے لیے بھی کہہ دیا گیا ہے۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں، جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں، گزشتہ کچھ عرصے سے علیٰحدگی پسندانہ سوچ، فرقہ ورانہ کشیدگی اور مسلح حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس بین الاقوامی امدادی ادارے کے کوئٹہ میں ترجمان امان اللہ رند کے مطابق دھمکیاں ملنے کے بعد ان کے ادارے نے ابتدائی طور پر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اپنے دونوں دفاتر کی سرگرمیاں محدود عرصے کے لئے معطل کر دی ہیں۔
ان نے بتایا کہ ریڈ کراس کے غیر ملکی کارکنوں کو تاحال کہیں اور نہیں بھیجا گیا، البتہ انہیں اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ ریڈ کراس کو ملنے والی ان دھمکیوں کی کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ دھمکیاں دینے والے عناصر کون ہیں۔
امان اللہ رند کے مطابق امدادی سرگرمیوں کی اس معطلی سے ریڈ کراس کے مقامی پارٹنر ادارے ہلال احمر کے اشتراک سے جاری امدادی منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑ گا۔
کوئٹہ میں پولیس کا کہنا ہے کہ رواں برس کے دوران اس پاکستانی صوبے میں اب تک ہونے والے لسانی اور فرقہ ورانہ واقعات میں کم از کم87 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
بلوچستان میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مقامی سربراہ جان سولیکی کو گزشتہ برس فروری میں مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا اور اس واقعے میں ان کا ڈرائیور قتل کر دیا گیا تھا۔ جان سولیکی کو ان کے اغواکاروں نے دو ماہ بعد رہا کر دیا تھا۔
رپورٹ: بخت زمان
ادارت: مقبول ملک