1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دہشت گردی نے صرف باپ ہی نہیں چھینا‘

31 اکتوبر 2011

دہشت گردی صرف بے گناہوں کی جان ہی نہیں لیتی بلکہ ایسے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے نفسیاتی، معاشرتی اور مالی مشکلات کا باعث بھی بنتی ہے۔ اس کی ایک مثال سات سالہ ضابطہ خان ہے۔

https://p.dw.com/p/132L3
تصویر: AP

ضابطہ خان کو اپنےگھرکا چولہا جلانے کے لیے دوپہر میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران وہ کڑی دھوپ میں ٹیکسیوں، رکشوں اور دیگر گاڑیوں سے بچتے ہوئے شہر کے پر ہجوم بازار میں پیاسے افراد کو پانی پلاتا ہے۔ 2009ء میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دورہ پاکستان کے دوران پشاور کے مینا بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 125افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ مرنے والوں میں ضابطہ خان کے والد خیر اللہ بھی شامل تھے۔ آج اسے اسی شاہراہ پر اور اسی بازار میں کام کرنا پڑ رہا ہے، جہاں 28 اکتوبر 2009ء کو اس کے والد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

اس سانحےکے بعد گھر والوں کی کفالت کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر آ پڑی۔ اس کے بقول وہ اسکول سے واپسی پر سیدھا بازار جاتا ہے، جہاں وہ دکانداروں اور گاہکوں کو پانی پلاتا ہے۔ اس کام کے لیے اسے تین سو روپے ماہانہ ملتے ہیں۔’’مجھے مارکیٹ میں کام کرنا بالکل اچھا نہیں لگتا، مجھے اسکول جانا پسند ہے، جہاں میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا ہوں‘‘۔ اس نے مزید بتایا کہ یہاں اس کےکوئی دوست نہیں ہیں۔ اس کی والدہ اسے یہاں کام کرنے کے لیے بھیجتی ہے تا کہ دو چھوٹے بھائیوں کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔

Jahresrückblick 2009 Autobombe in Pakistan
2009ء میں پشاور کے مینا بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 125افراد لقمہ اجل بنے تھےتصویر: AP

پاکستان میں2007ء سے اب تک مختلف بم دھماکوں میں تقریباً 5 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی ایسے زخمیوں اور معذوروں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، جن کے لیےکسی قسم کا کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو ان حملوں کا براہ راست نشانہ تونہیں بنے لیکن اس سے شدید متاثر ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی مینیجر زرینہ جیلانی نے بتایا کہ پاکستان کے 80 ملین بچوں میں سے 10ملین کام کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ ان میں سےکتنے بچے ایسے ہیں، جن کے والد یا گھر کا واحد کفیل بم دھماکے یا کسی اور دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہو گیا ہو۔

پاکستان میں سینکڑوں بچے نہ چاہتے ہوئے بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ضابطہ خان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ روایت یہ ہےکہ والد کے انتقال کے بعد بڑا بیٹا اس کی جگہ لیتا ہے اور ضابطہ اپنی ماں کےکہنے پر یہ ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں