دہشت گردی، پاکستان، بھارت اور امریکہ کا مشترکہ مسئلہ ہے:ہال بروک
16 فروری 2009بھارتی لیڈروں سے ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک مشترکہ خطرہ ہے اور امریکہ بھارت اور پاکستان کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
باراک اوباما کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد امریکہ کے کسی اعلٰی افسر کا بھارت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ پرنب مکھرجی، قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن اور خارجہ سکریٹری شیو شنکر مینن سے ملاقات کی۔ بھارتی رہنماوں کے ساتھ ملاقات کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے ہال بروک نے کہا : ’’میں نے بھارتی رہنماوں کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران انہیں پاکستان اور افغانستان کے اپنے دورے کی تفصیلات بتائیں۔ میں اوباما انتظامیہ کی طرف سے کوئی پیغام یا ہدایت نامہ لے کر نہیں آیا تھا ۔ میں مختلف امور پر بھارت کے نظریات سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا تھا‘‘۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے ہال بروک سے اپنی ملاقات کے دوران کہا کہ ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کو بھارت، پاکستان کے تعلقات یا جموں کشمیر کے مسئلے کی روشنی میں نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ پرنب مکھر جی کا کہنا تھا کہ ممبئی کے واقعات دراصل عالمی دہشت گردی نیٹ ورک کا حصہ تھے اور ان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بھارتی رہنماوں نے امریکی ایلچی سے کہا کہ وہ افغانستان کے استحکام اور تعمیر نو کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تاہم نئی دہلی نے کابل میں فوج بھیجنے کے سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کیا۔
بات چیت کے دوران ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا معاملہ چھایا رہا اور بھارت نے امریکہ سے کہا کہ وہ ان حملوں میں ملوث خطاکاروں کو سزا دلانے کے لئے پاکستان پر دباو ڈالے۔
ہال بروک نے دہشت گردی کو امریکہ، پاکستان اور بھارت کا مشترکہ خطرہ بتاتے ہوئےکہا: ’’ سوات میں جوکچھ ہوا وہ اس اہم بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بھارت، پاکستان اور امریکہ کو ایک مشترکہ خطرے کا سامنا ہے۔ آزادی کے بعد، ساٹھ سال میں پہلی مرتبہ آپ کے ملک اور پاکستان اور امریکہ کو ایسے خطرے کا سامنا ہے جو ہمارے رہنماوں، ہمارے شہروں اور ہمارے عوام کا دشمن ہے ۔‘‘
ہال بروک نے بتایا کہ وہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے دورے کی تفصیلات سے صدر باراک اوباما اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو مطلع کریں گے۔ انہوں نے پاکستان میں شمال مغربی صوبہ کے سوات میں جنگ بندی کے سلسلے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سوات نہیں جاسکے اور انہوں نے صرف مہمند اور پشاور کا دورہ کیا۔انہوں نے تاہم کہا کہ سوات کے واقعات نے نہ صرف پشاور بلکہ اسلام آباد اور لاہور کے لوگوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔