1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کا خاتمہ اور افغان امن: پاکستانی نسخہ مؤثر ہو گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
14 دسمبر 2018

پاکستانی فوج نے زور دیا ہے کہ دہشت گردی کے جڑ سے خاتمے کے لیے اس مسئلے کا علاقائی حل تلاش کیا جائے۔ ساتھ ہی اس نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3AADb
تصویر: Getty Images

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز کے مطابق جمعرات تیرہ دسمبر کو ہونے والے پاکستان آرمی کے کورکمانڈرز کے ایک اجلاس نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں جاری امن و مصالحت کی کوششیں کامیاب ہوں گی۔ واضح رہے کہ پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کے خارجہ اور دفاعی امور پر فوج کی گرفت بہت مضبوط ہے اور کئی غیر ملکی رہنماؤں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے۔

Symbolbild zum Dreiergipfel USA Afghanistan Pakistan
تصویر: AP Graphics/DW

افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے مابین گزشتہ کچھ عرصے سے کافی تلخی رہی ہے۔

امریکی حکام پاکستان پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جب کہ اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ واشنگٹن نئی دہلی کو جنگ زدہ افغانستان میں اہم کردار دینا چاہتا ہے، جو پاکستان کے اسٹریٹیجک مفادات کے خلاف ہے۔

اسلام آباد نئی دہلی پر یہ الزام بھی لگاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ذریعے پاکستان میں بد امنی پھیلانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ نئی دہلی اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

لیکن کئی ماہرین کے خیال میں ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تند وتیز جملوں اور سخت بیانات کے تبادلے کے باوجود دونوں ممالک افغانستان میں امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اسٹریٹیجک مفادات کے حق میں بولنے والے تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان افغانستان میں امن دیکھنے کا خواہاں ہے۔ تاہم اس مسئلے کے حل کے لیے علاقائی ممالک کو اعتماد میں لینا ضروری ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی سوچ بالکل مناسب ہے۔

معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں اگر امریکا اور طالبان دو طرفہ مذاکرات کرتے ہیں، تو ان کے نتیجے میں افغانستان میں دیرپا امن قائم نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان نے امن کی ہر کوشش کا ساتھ دیا ہے۔ ہم روس میں ہونے والے مذاکرات کا حصہ بنے۔ چین کے چار فریقی مذاکرات کا حصہ بھی رہے۔ ہم نے ملا عبدالغنی برادر کو رہا کیا، جو اب امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ان دونوں فریقین کے مابین کئی معاملات ایسے ہیں، جو خطے کی ریاستوں کے تعاون کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔‘‘

’’ مثال کے طور پر طالبان کہتے ہیں کہ بس امریکا نکلے، تو خطے کے ممالک ضامن کے طور پر امریکا سے افغانستان سے نکلنے کا وقت لے سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر علاقائی ممالک کو شامل نہ کیا گیا، تو کل کو یہ گارنٹی کون دے گا کہ طالبان یا امریکا اپنے وعدوں سے پھر نہیں جائیں گے؟ تو اسلام آباد کا یہ کہنا ہے کہ خطے میں قیام امن، دہشت گردی کے مسئلے کے حل اور افغانستان میں امن کی خاطر روس، چین، ایران، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کو اعتماد میں لیا جائے۔‘‘

’علاقائی حل‘ والے فارمولے کے حوالے سے ماہرین کے درمیان اختلاف بھی ہے۔ جہاں میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان یہ سمجھتے ہیں کہ علاقائی حل سے مراد یہ ہے کہ چین، روس، ایران اور پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے، وہیں بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کے خیال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’صرف پڑوسی ممالک‘ کو اس حل میں فریق بنایا جائے۔

ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کہتے ہیں، ’’پاکستان کی یہ پرانی پالیسی ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک پاکستان، ایران ، چین اور وسطی ایشیائی ریاستیں اس حل میں فریق بنیں۔ یہ طرز فکر حقیقت پسندانہ نہیں ہے کیونکہ اس میں آپ روس اور امریکا کو باہر کر دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں پالیسی سازوں کا خیال شاید یہ ہے کہ ہمیں بڑی طاقتوں کو اپنی سرحدوں کے قریب موجود نہیں رہنے دینا چاہیے کیونکہ اس سے خدشہ یہ رہتا ہے کہ اگر ان طاقتوں کے مابین کو ئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے، تو ہم درمیان میں سینڈوچ بن جائیں گے۔ لیکن میری رائے میں اس طرح کی سوچ قابل عمل نہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں