دہشت گردی کے خلاف چونتیس مسلم ممالک کا فوجی اتحاد
15 دسمبر 2015نئے عسکری اتحاد کے بارے میں تفصیلات سعودی عرب کی نیوز ایجنسی ایس پی اے نے جاری کی ہیں۔ اِس کے مطابق اِس عسکری اتحاد کی قیادت سعودی عرب کے ہاتھ میں ہو گی اور دہشت گردی کا ہر ممکن طریقے سے متحد ہو کر مقابلہ اُس وقت تک کیا جائے گا جب تک اِس کا صفایا نہیں ہو جاتا۔ اِس بیان میں کہا گیا کہ اسلام زمین پر کرپشن اور تباہی و بربادی کی ممانعت کرتا ہے اور ویسے بھی دہشت گردی بنیادی طور پر انسانی وقار کے منافی عمل ہونے کے علاوہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اِس میں خاص طور پر کسی انسان کو ہلاک کرنا اور سلامتی کی صورت حال کو تہس نہس کرنا بھی شامل ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے اِس عسکری اتحاد کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اِس عسکری اتحاد میں دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطہ اور معاونت کے ذریعے ایسا طریقہٴ کار وضع کیا جائے گا، جو انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو تقویت دے گا۔ شہزادہ محمد کے مطابق اِس اتحاد کی عسکری کارروائیاں صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں رکھی جائیں گی بلکہ دہشت گردی جہاں بھی ہو گی وہاں اتحاد سامنے آ سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تقریباً سبھی مسلمان ملکوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اِس کے خاتمے کے لیے مشترکہ اور منظم عملی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی کے خلاف قائم کیے گئے اِس نئے عسکری اتحاد میں ایسی اقوام بھی شامل ہیں جن کے پاس انتہائی تجربہ کار اور بڑی افواج ہیں۔ ایسے ملکوں میں پاکستان، ترکی اور مصر خاص طور پر نمایاں ہیں۔ سعودی عرب کے علاقائی حریف ملک ایران کا نام اُن چونتیس ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں جو سعودی نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب اور ایران جنگ زدہ ملکوں شام اور یمن میں ایک دوسرے کے مخالف اطراف پر ہیں۔ خلیج فارس کی عرب ریاستیں بھی اِس اتحاد کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں۔
اتحاد میں ایسے ممالک بھی شامل ہونے کے خواہش مند ہیں جنہیں جنگ زدہ حالات کا سامنا ہے اور وہاں امن و سلامتی کا فقدان ہے۔ ایسے حالات کا سامنا کرنے والے ملکوں یمن اور لیبیا نے اتحاد میں شامل ہونے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف سعودی اتحاد کے ممالک زمینی و فضائی عسکری کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُدھر اتحاد میں شمولیت کی خواہش رکھنے والے عراق اور شام میں امریکی اتحاد میں شامل ملک اور روس مسلح عسکریت پسندوں کو فضائی حملوں سے ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ براعظم افریقہ کی وہ ریاستیں بھی اتحاد میں شامل ہونے پر متفق ہیں جہاں دہشت گردانہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں مالی، چاڈ، صومالیہ اور نائجیریا شامل ہیں۔