دہلی میں مذہبی تشدد کا تیسرا دن، ہلاکتیں 13 ہو گئیں
25 فروری 2020نئی دہلی میں پر تشدد واقعات آج تیسرے روز بھی جاری رہے۔ طبی ذرائع کے مطابق اس دوران اب تک 13 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر چکی ہے۔
گرو تیج بہادر ہاسپٹل کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے بتایا، ''میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ کم از کم 150 افراد ہمارے ہسپتال میں ایسے لائے گئے جو زخمی تھے۔‘‘ اس اہلکار کے مطابق ایک درجن سے زائد افراد کی صورتحال تشویشناک ہے: ''یہاں ابھی بھی بعض زخمی لوگوں کو لایا جا رہا ہے۔ آج آنے والے زیادہ تر زخمی آتشیں اسلحے کا شکار ہوئے۔‘‘
نئی دہلی میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے صلاح الدین زین کے مطابق بھارت کے شہریت سے متعلق نئے متنازعہ قانون کی مخالفت میں دارالحکومت نئی دہلی کے مختلف علاقوں میں دھرنوں کا سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور اسی کی مخالفت کے لیے حکمراں جماعت بی جے پی نے اس قانون کی حمایت میں انہی علاقوں میں مظاہرے شروع کیے جہاں پہلے سے دھرنے جاری تھے۔ تشدد کی ابتدا وہیں سے ہوئی۔
شمال مشرقی دلی میں بھجن پورہ، جعفرآباد، کراول نگر، موج پو، چاند باغ اور دیال پور جیسے علاقے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں ایک خاص فرقے کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بلوائیوں نے مکانات، گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ مار پیٹ کی۔ ان علاقوں میں امتناعی احکامات نافذ کیے گے ہیں۔
اتوار 23 فروری کو دہلی کے ایک مقامی بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے شہریت قانون کی حمایت میں ایک مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر پولیس نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے دھرنے کو تین روز کے اندر ختم نہیں کیا تو اسے برداشت نہیں کیا جائےگا اورپھر پولیس کی بھی نہیں سنی جائے گی۔ اسی روز سے دلی میں دونوں گرہوں کے درمیان تشدد جاری ہے۔
ا ب ا / ش ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)