دہلی کے لال قلعے کی دعویدار سلطانہ بیگم
کولکتہ کی ایک کچی بستی میں رہنے والی سلطانہ بیگم کا دعویٰ ہے کہ وہ دہلی کے تاریخی لال قلعے کی مالک ہیں۔ وہ کئی برسوں سے اپنے اس حق کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔
میں ہوں لال قلعے کی مالک
یہ ہیں سلطانہ بیگم۔ کولکتہ کی ایک کچی بستی میں دو کمرے کے چھوٹے سے گھر میں رہتی ہیں۔ گھر میں سازو سامان کے نام پر چند معمولی چیزیں ہیں۔
بہادر شاہ ظفر کی نسل
سلطانہ بیگم کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندوستان کے آخر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی نسل سے ہیں۔ وہ اسی دعوے کی بنیاد پر بھارت سرکار سے اپنی رہائش کے لیے ایک محل چاہتی ہیں۔
شاہی درجہ دیا جائے
کبھی ٹھیلے پر چائے فروخت کرنے والی سلطانہ بیگم گزشتہ ایک دہائی سے اپنا شاہی درجہ اور اس کی مناسبت سے معاوضہ پانے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،"ذرا سوچیے جن بادشاہوں نے تاج محل بنوایا ان کے وارث کس غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔"
عدالت میں اپیل
سلطانہ بیگم نے دہلی کی ایک عدالت میں کیس کرکے لال قلعے پر اپنادعوی کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے،"مجھے امید ہے کہ بھارت سرکار مجھے انصاف دلائے گی۔"
مقدمہ خارج
دہلی ہائی کورٹ نے 29 دسمبر 2021 کو سلطانہ بیگم کی عرضی خارج کرتے ہوئے کہا کہ ان کا دعوی"وقت کی بربادی"ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ بہادر شاہ ظفر کے کسی اور وارث نے 150 برس کے دوران ایسا دعویٰ کیوں نہیں کیا۔
لڑائی جاری رہے گی
دہلی ہائی کورٹ نے سلطانہ بیگم کے دعوے کو غلط نہیں قرار دیا۔ اس لیے ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ جاری رہے گا اور وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ سلطانہ بیگم فی الحال 6000 روپے ماہانہ پینشن اور امید پر زندہ ہیں۔
کس کا ہے لال قلعہ
سن 1857 میں برطانوی حکومت نے بہادر شاہ ظفر کو تخت سے بے دخل کرکے قید کر دیا تھا اور ان کے تمام دس بیٹوں کو قتل کر دیا تھا۔ پانچ برس بعد میانمار کے رنگون میں87 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ سلطانہ بیگم کا دعوی ہے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے پڑ پوتے مرزا محمد بیدار بخت کی اہلیہ ہیں اور اس کا قانونی دستاویز ان کے پاس موجود ہے۔
لال قلعہ کی اہمیت
برطانوی حکومت سے آزادی ملنے کے بعد بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے لال قلعہ پر پہلی مرتبہ قومی پرچم لہرایا تھا۔ اس کے بعد سے ان کے تمام جانشین 15 اگست کو لال قلعے کی فصیل پر قومی پرچم لہراتے اور قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ جاوید اختر