1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی گینگ ریپ: ایک سال بعد بھی خواتین غیر محفوظ

کشور مصطفیٰ13 دسمبر 2013

بھارت میں حقوق نسواں سے متعلق نئے قوانین کے تحت عورتوں کا پیچھا کرنا، شہوت نظری اور جنسی طور پر ہراساں کرنا جرم قرار دے دیا گیا ہے تاہم نئی دہلی اور ممبئی جیسے شہروں کی خواتین اب بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AYpl
تصویر: picture alliance/AP Photo

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے جنوبی علاقے میں ایک 23 سالہ طالبہ کو اجتماعی زیادتی اور انتہائی بے دردی سے زدوکوب کیے جانے کے گھناؤنے واقعے کو ایک سال کا عرصہ ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد بھارت سمیت دنیا بھر میں دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف سخت احتجاج اور مظاہرے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد سے نئی دہلی حکومت نے معاشرے میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے سد باب کے لیے متعدد اقدامات اُٹھائے۔ خواتین کے حقوق سے متعلق اس اصلاحاتی پروگرام میں شامل ایک سرکاری ہاٹ لائن کی فراہمی بھی ہے جس کے ذریعے خواتین متعلقہ ادارے کو ٹیلی فون کر کے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی یا کسی قسم کے خطرات سے مطلع کر سکتی ہیں۔

ہاٹ لائن سروس

یہ سروس اتنی مقبول ہوئی کہ نئی دہلی میں قائم اس ہاٹ لائن سروس کے بغیر کھڑکیوں والے ایک بند کمرے پر مشتمل آفس میں ایک لمحے کے لیے بھی ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز بند نہیں ہوتی۔ اپنی اپنی شکایات درج کرانے کی غرض سے لاتعداد خواتین بے تابی سے اس ہاٹ لائن سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

ایک خاتون کا فون آتا ہے اور وہ سرگوشی میں بتاتی ہے کہ اُس کا شوہر اُسے مسلسل پیٹتا ہے کیونکہ وہ شادی میں کافی جہیز نہیں لا سکی تھی۔ ایک اور خاتون نے فون پہ بتایا کہ اُس کا ایک پڑوسی اُن کی ٹین ایجر بیٹی کا مسلسل تعاقب کر رہا ہے اور انہیں اس سلسلے میں قانونی مشورہ چاہیے۔

Indien Urteil Gerichtsprozess 13.09.2013
خواتین کے حقوق سے متعلق متعدد نئے قوانین بنائے گئے ہیںتصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images

حقوق نسواں نئے قوانین کی روشنی میں

بھارت میں حقوق نسواں سے متعلق وضع کردہ نئے قوانین کے تحت عورتوں کا پیچھا کرنا، شہوت نظری اور جنسی طور پر ہراساں کرنا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اب اس ملک میں عصمت دری یا جنسی زیادتی کے کیسس کی سماعت کے لیے ایسی کورٹ موجود ہے جو مقدمے کو تیز رفتاری سے انجام دے گی۔

بھارت میں گزشتہ سال اجتماعی زیادتی کا جو واقعہ 16 دسمبر کو جنوبی دہلی میں پیش آیا تھا۔ اُس کے بعد سے ملکی سطح پر ہونے والی مذمت اور احتجاج کے سبب ایک طرف تو نئی دہلی حکومت خواتین کے حقوق و تحفظ کے لیے متعدد اقدامات پر مجبور ہوئی تو دوسری جانب اس واقعے کے بعد ایک ایسے موضوع پر کُھلے عام بحث شروع ہو گئی ہے جسے معاشرے میں اب تک ٹابو یا شجر ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا تھا۔ بھارتی معاشرے میں اب تک جنسی زیادتی کو عورت کے لیے شرمندگی کا سبب تصور کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس زیادتی کا شکار ہونے والی اکثر خواتین معاشرتی خجالت سے بچنے کے لیے خاموش ہو جاتی تھیں۔

Neu Delhi Proteste Demonstration Vergewaltigung Indien
گینگ ریپ کے خلاف ملک بھر میں ہونے والا احتجاجتصویر: AFP/Getty Images

خواتین ہنوز عدم تحفظ کا شکار

تاہم نئی دہلی اور ممبئی جیسے بڑے بھارتی شہروں کی خواتین نئے قوانین کے باوجود خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہی ہیں۔ انہیں ماضی کی طرح اب بھی بھارت کے پدر سری اور قدامت پسند معاشرے میں بے خطر سڑکوں پر نکلنے میں دشواریوں کا سامنا ہے کیونکہ یہ مسلسل مردوں کی چبھتی ہوئی نظروں اور بازاری جملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی ایک 23 سالہ بزنس ایگزیکٹیو برنالی برمن کے بقول، ’’میں جیسے ہی ٹرین سے اُتر کر اپنے دفتر کی طرف چلنے لگتی ہوں، مرد میرا پیچھا کرنے لگتے ہیں۔‘‘

اُدھر گزشتہ دسمبر میں نئی دہلی میں ایک بس کے اندر اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی 23 سالہ فزیو تھراپی کی طالبہ، جو بعد ازاں سنگاپور کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئی تھیں اور جنہیں میڈیا میں ’نربھایا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے والد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ اُن کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بعد بھارت میں اس ضمن میں ہونے والی قانونی تبدیلیاں اُن کے لیے کسی حد تک سکون کا باعث ضرور ہیں تاہم ان کا دُکھ بہت بڑا ہے۔

Neu Delhi Proteste Demonstration Vergewaltigung Indien
شہروں میں رہنے والی خواتین بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیںتصویر: AFP/Getty Images

جنسی تشدد کی شکار طالبہ کے زندہ درگور والدین

نئی دہلی کے مضافاتی علاقے میں ایک تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں رہنے والے اس خاندان کے ساتھ اے پی کے صحافیوں نے انٹرویو کیا جس میں ’نربھایا‘ کے والد نے اشکبار لہجے میں کہا، ’’کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب ہم آنسو نہیں بہاتے، ہمارے آنسو اپنی بیٹی کی موت سے زیادہ کچھ اُس پر بیتی، اُس پر بہتے ہیں۔ ہم کسی صورت نہیں بھول سکتے کہ ان ظالم مردوں نے میری بیٹی کے ساتھ کیا کیا۔‘‘

اس واقعے کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور کئی حلقوں نے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا اور نابالغوں کے لیے قوانین میں ترامیم کا مطالبہ بھی سامنے آیا تھا۔

بھارتی حکومت نے اس واقعے کے بعد جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات پر قابو پانے کے لیے قانون میں ترمیم کے ساتھ ساتھ پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے ہیں۔