دہی کھانے سے ذیابیطس کے خطرے میں کمی ہوتی ہے، رپورٹ
10 فروری 2014گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی اس تحقیقی رپورٹ میں 35 سو برطانوی شہریوں کا مطالعہ کیا گیا۔ یہ سائنسی شواہد ایک طویل دورانیے پر محیط طبی جائزے کی بنیاد پر جمع کیے گیے۔ اس تحقیق میں برطانیہ کے مشرقی علاقے میں خواتین اور حضرات کی کھانے پینے کی عادات کا تحقیق کے آغاز سے اختتام تک مستقل ریکارڈ رکھا گیا اور انہیں اعداد وشمار اور معلومات کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کیے گئے۔
تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی علاقے نورفولک میں گیارہ برس کے دورانیے میں 753 بالغ افراد میں ٹائپ ٹو ذیابیطس پیدا ہوا۔ تاہم ایسے افراد جو دہی اور کم چکنائی کے حامل پنیر کا باقاعدگی سے استعمال کرتے رہے، ان میں اس مرض کو یہ اشیاء استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 24 فیصد تک کم دیکھا گیا۔
تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف دہی کا باقاعدگی سے استعمال کرنے والوں میں اس بیماری کی شرح دہی کا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 28 فیصد کم دیکھی گئی ۔
تحقیق کے مطابق ایسے افراد جنہوں نے 125گرام دہی کا ایک ہفتے میں اوسطاﹰ ساڑھے چار مرتبہ استعمال کیا، دیگر افراد کے مقابلے میں ذیابیطس سے محفوظ دِکھائی دیے۔
محققین کے مطابق ذیابیطس میں کمی کا تعلق صرف دہی اور کم چکنائی والی ڈیری پراڈکس سے دیکھا گیا ہے اور زیادہ چکنائی والی ڈیری مصنوعات اور دودھ کا اس مرض میں کمی کے حوالے سے کوئی کردار سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ تحقیقی رپورٹ سائنسی جریدے ڈائیباٹوجیہ میں شائع ہوئی ہے، تاہم اس تحقیق میں یہ نہیں بتایاگیا ہے کہ دہی یا کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات اور ذیابیطس میں کمی کے درمیان یہ تعلق کیوں ہے اور وہ کیا محرکات ہیں جو دہی کے استعمال کو اس بیماری کے خلاف فائدہ مند اور موثر بناتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق اب یہ تحقیق کی جائے گی کہ آیا ذیابیطس کے مرض میں کمی دہی میں پائے جانے والے پروبائیوٹک بیکٹریا یا دہی میں موجود ایک خصوصی وٹامن K کی وجہ سے ہوتی ہے، یا کوئی دوسرے عوامل ان وجوہات درپردہ کارفرما ہوتے ہیں۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج کی ایپی ڈیمیولوجسٹ نیتا فروحی کے مطابق، ’ایک ایسے وقت میں جب ہمیں بہت سے شواہد مل رہے ہیں کہ شکر کی حامل غذاؤں اور مشروبات ہماری صحت کے لیے مضر ہیں، یہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے کہ کم چکنائی کی حامل ڈیری مصنوعات ہماری بہتر صحت میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔
تاہم اس تحقیق کے مصنفین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق میں شامل افراد نے مطالعے کے آغاز میں رضاکارانہ طور پر اپنی غذائی عادات تحریر کی تھیں اور مطالعے میں یہ بات واضح نہیں کہ بعد میں کس طرح ان افراد کی ان غذائی عادات اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی گئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں مختلف افراد میں موٹاپے اور ذیابیطس کے معاملے میں ان کے خاندانی پس منظر کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے، جو اس مطالعے کے نتائج کے ٹھوس ہونے پر سوال پیدا کرتا ہے۔