دیہی خواتین: تعلیم ، روزگار ’تشدد سے تحفظ کے بہترین ذرائع‘
15 اکتوبر 2022''میں نے گھر میں اپنی ماں کو صبح سے شام تک مسلسل کام کرتے اور پھر ذلیل ہوتے بلکہ تشدد کا نشانہ تک بنتے دیکھا۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کے عمومی سماجی رویوں میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ مجھے ایسی زندگی سے نفرت ہو گئی، جس میں کل وقتی محنت کے بعد بھی کسی انسان کو دو وقت کی عزت کی روٹی بھی نصیب نہ ہو۔ کئی حوالوں سے اس سے بہتر زندگی تو جانور بھی گزار لیتے ہیں۔" یہ موقف ہے 28 سالہ فائزہ کا جنہوں نے دیہی علاقوں کی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو کو اپنی کہانی سنائی۔
پاکستانی خواتین کو خلع لینے کی مجبوری آخر کیوں ہے؟
اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''باورچی خانے، گھر اور مویشیوں کے باڑے کی صفائی جیسے کاموں کا ختم نہ ہونے والا چکر میری والدہ کی زندگی نگلتا جا رہا تھا۔ وہ اپنی عمر سے کہیں بڑی لگتی تھیں اور اکثر خاموش رہتیں، جیسے اپنے حالات زندگی کو قبول کر چکی ہوں۔"
پاکستان میں اب ایک نجی ادارے میں قانونی مشیر کے فرائض انجام دینے والی فائزہ نے اپنی ناخوش گوار یادوں کی پٹاری کھولتے ہوئے بتایا، ''میرے لیے سب سے تکلیف دہ لمحات وہ ہوتے تھے، جب معمولی سی بھی کوتاہی یا بعض اوقات بغیر کسی بھی وجہ کے میری والدہ کو گالیوں اور تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ بہت زیادہ کام کرنے کے باوجود گھر کی کمزور ترین فرد تھیں۔ یہ میری والدہ ہی کی نہیں بلکہ لاتعداد پاکستانی دیہی خواتین کی زندگی کی کہانی بھی ہے۔"
کیا آپ اپنی والدہ کی زندگی جینا چاہیں گے؟
فائزہ تعلیم کو اپنے لیے نجات دہندہ تصور کرتی ہیں۔ ”لاء کالج پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ میری زندگی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ مجھے لگا اب میری زندگی اپنی والدی سے ضرور مختلف ہو گی۔ مجھے یہ شعور ملا کہ عورت کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جیے۔ وہ صرف دوسروں کی خدمت گزاری کے لیے پیدا نہیں ہوتی۔‘‘
اس نوجوان پاکستان خاتون کے بقول، ''میں آج بھی سمجھتی ہوں کہ معاشی خود مختاری بہتر زندگی کی کلید ہے۔ میری والدہ کے جو حالات تھے، وہ لیے تھے کہ ان کا الگ سے کوئی روزگار یا ذریعہ معاش نہیں تھا۔ تعلیم اور روزگار مردانہ تشدد سے تحفظ کے لیے بہترین ہتھیار ہیں۔ پاکستان کی دیہی خواتین کو تشدد کی نہیں عزت کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستانی دیہی علاقوں میں خواتین کی زندگی بہتر ہوتی ہوئی؟
پاکستان میں دیہی علاقوں کی خواتین کے حقوق اور آگہی کے لیے کام کرنے والے ایک غیر حکومتی ادارے PODA کے پروگرام 'دیہی اتحاد نیٹ ورک‘ کی ڈائریکٹر ناہید عباسی اس امر سے اتفاق کرتی ہیں کہ سارا دن کام کرنے کے باوجود دیہی علاقوں کی خواتین کو 'ورکنگ ویمن‘ کے طور پر سراہا ہی نہیں جاتا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ناہید عباسی نے کہا، ''تشدد سمیت یہ سب کچھ ہی ہمارے دیہی طرز زندگی کا حصہ رہا ہے۔ اب لیکن حالات بدل رہے ہیں۔" انہوں نے بتایا، ''یقیناً اس میں اہم ترین کردار تعلیم کا ہے۔ ماضی کی نسبت اب پاکستان میں خواتین کی زیادہ بڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا رہی ہے۔ اس سے فرق تو پڑنا ہی تھا۔ اگر موجودہ دور کا ماضی سے موازنہ کیا جائے، تو بحیثیت مجموعی اس حوالے سے آگہی بڑھی ہے اور روزگار کے شعبے میں بھی خواتین کا تناسب روز بروز زیادہ ہی ہو رہا ہے۔‘‘
لاکھوں سیلاب زدہ، حاملہ پاکستانی خواتین کو طبی مدد کی ضرورت
پاکستانی صوبہ پنجاب میں 'پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن‘ خواتین کے تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے قائم کردہ ایک حکومتی ادارہ ہے۔ اس ادارے سے وابستہ قانونی مشیر آمنہ آصف نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''خواتین کی تعلیم اور ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا پاکستان کی ہر حکومت کی ترجیح رہی ہے، جس کے ثمرات بالآخر دیہی علاقوں کی خواتین تک بھی پہنچتے ہیں۔"
آمنہ آصف نے بتایا، ''خواتین کے تحفظ اور مدد کے لیے ہماری ہیلپ لائن 1043 پر اگرچہ شہری خواتین بھی رابطے کرتی ہیں لیکن زیادہ بڑی تعداد دیہی خواتین ہی کی ہوتی ہے۔ نوجوان خواتین زیادہ بہادر ہیں۔ وہ آواز اٹھانے کی ہمت کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔ انہیں ایسے اداروں کی خدمات بھی حاصل ہیں، جو ہر طرح کی رہنمائی اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں خواتین میں یہی شعور اور ہمت بہت ہی کم اور ایسے ادارے تو نہ ہونے کے برابر تھے۔"
’صورت حال بہتر ہوئی مگر تسلی بخش نہیں‘
معروف اینکر اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی غریدہ فاروقی یہ تو تسلیم کرتی ہیں کہ صورت حال اب کافی بہتر ہو گئی ہے، مگر وہ اسے 'تسلی بخش‘ اب بھی نہیں سمجھتیں۔
سیاسی جماعتوں کی دھندلاتی ہوئی جمہوریت اور پاکستانی خواتین
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پاکستانی دیہی خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے، س میں تعلیم کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع آمد و رفت کی صورت میں بہتر سہولیات نے بھی ان کے لیے یہ کام آسان کر دیا ہے کہ وہ اپنے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر اس تبدیلی کی رفتار ابھی تک بہت سست اور تبدیلی کا حجم بہت کم ہے۔"
غریدہ فاروقی نے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا، ''شہروں کی نسبت پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مگر اعلیٰ ملازمتوں یا فیصلہ ساز عہدوں کی بات کی جائے تو آج بھی شہری خواتین دیہی خواتین سے بہت آگے ہیں۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے ملازمتوں کا دائرہ بھی وسیع کیا جائے اور ان کی فیصلہ ساز عہدوں پر موجودگی کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘
گھروں اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کا کردار تسلیم کرنے کی ضرورت
غریدہ فاروقی کا کہنا تھا، ''دیہی علاقوں کی خواتین نہ صرف شہری مردوں اور عورتوں بلکہ دیہی مردوں سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں۔ لیکن ان کے کام کو کام سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس فرق اور اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، جو آج بھی پوری شدت سے پائے جاتے ہیں۔ دیہی خواتین کی محنت کو بھی سراہا جانا چاہیے۔"
پاکستانی عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی کم کیوں؟
ناہید عباسی کے مطابق، ''حکومتی سطح پر بھی ان خواتین کو سراہا نہیں جاتا، جو ایک افسوس ناک رویہ ہے۔ ایک عام دیہی خاتون جس کا ملکی پیداوار میں بہت اہم کردار ہے، وہی عورت صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ وہ ہسپتال جائے تو وہاں طبی سہولیات ہی کافی نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں رات کے وقت کسی خاتون کو کسی شدید طبی مسئلے کا سامنا کرنا پڑ جائے، تو علاقے کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر تک نہیں ملتا۔ یہ حکومتوں کے کرنے کے وہ کام ہیں، جن کی دیہی خواتین بھی دیہی علاقوں کے مردوں اور شہری علاقوں کی آبادی کی طرح برابر کی حق دار ہیں۔‘‘