ذات کیا انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہے؟
21 اکتوبر 2015بھارتی ریاست ہریانہ کی پولیس نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد دلت برادری کی جانب سے شدید احتجاج بھی کیا گیا اور دونوں بچوں کی لاشوں کو اٹھا کر کیے جانے والے اس احتجاج میں ایک ہزار سے زائد سے شریک ہوئے۔ اس دوران مظاہرین نے آگرہ شہر کو جانے والی مرکزی شاہراہ بھی بند کر دی۔
پولیس کے مطابق کئی افراد نے مل کر ضلح بلاب گڑھ کے سنپدھ گاؤں میں ایک گھر پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی، جس میں آٹھ ماہ کی ایک بچی اور اس کا ڈھائی سالہ بھائی جھلس کر ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے میں ان بچوں کے والدین زخمی ہیں اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ متاثرہ خاندان کا تعلق ہندو مذہب میں سب سے نچلی ذات ’دلت‘ سے ہے۔ تاہم ہریانہ کے وزیر اعلی کے دفتر کے ایک اہلکار جواہر یادو نے بتایا، ’’ اس واقعے کا تعلق ذات پات سے نہیں بلکہ یہ خاندانی دشمنی کا معاملہ ہے‘‘۔ انہوں نے اسے ایک افسوسناک واقعہ قرار دیا۔
تاہم متاثرہ خاندان کے افراد کا موقف ہے کہ انہیں اونچی ذات کے افراد نے ایک سال قبل قتل کے ایک واقعے کا بدلہ لینے کے لیے نشانہ بنایا ہے۔ ایک مقامی پولیس اہلکار نے بھی نام خفیہ رکھنے کی شرط پر اس موقف کی تصدیق کی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما راہول گاندھی نے ضلع بلاب گڑھ کا دورہ کرتے ہوئے مرکزی حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کے بقول حکومت غریب عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
کئی دہائیوں سے بھارت میں ہندوؤں کی مختلف ذاتوں کے مابین فسادات ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک گاؤں کی پنچائیت پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایک ایسے لڑکے کی دو بہنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا حکم دیا تھا، جو ایک اونچی ذات کی لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا۔ تاہم پنچائیت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔1947ء میں آزادی کے ساتھ ہی بھارت میں ذات کی وجہ سے امتیازی سلوک کا بھی خاتمہ کر دیا گیا تھا لیکن آج بھی بھارتی معاشرے میں یہ نظام برقرار ہے۔