ذاکر نائیک کی تنظیم پر پانچ برس کی پابندی
16 نومبر 2016بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس ادارے پر پابندی کی منظوری کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق ’غیر قانونی ادارہ‘ اور ایک ’دہشتگرد ادارے‘ کی تعریف میں فرق ہے۔ ’غیر قانونی ادارے‘ سے معاشرے کے امن و امان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس پابندی کے بعد اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن یا آئی آر ایف کے ملک بھر میں قائم دفاتر بند کر دیے جائیں گے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ذاکر نائیک اور ان کی اس غیر سرکاری تنظیم کے کارکنان کے خلاف کئی ایف آئی آر پہلے سے ہی درج ہیں۔ بھارتی انٹیلیجنس بیورو نے ذاکر نائیک کی کئی تقاریر کی فہرست مرتب کی ہے جن میں وہ اسامہ بن لادن کی تعریف کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہ بھی کہا کہ اسی فیصد بھارتی شہری ہندو مذہب کے پیروکار نہ ہوتے اگر مسلمان خود کش حملوں اور تلوار کے زور پر انہیں اسلام قبول کرواتے۔ ذاکر نائیک نے اپنی تقاریر میں ہندوؤں کے دیوتاؤں کے بارے میں بھی قابل اعتراض کلمات ادا کیے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر خطبات ’پیس ٹی وی‘ کے ذریعے نشر کیے جا چکے ہیں۔ پیس ٹی وی کا کافی مواد ہارمنی میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ ذاکر نائیک کی اہلیہ اور وہ خود اس ادارے کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں قائم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل سے بڑی مالیت کی رقوم ہارمونی میڈیا کو بھجوائی گئی تھیں۔ بھارتی کابینہ کے مطابق اگر فوری طور پر آئی آر ایف پر پابندی عائد نہیں کی جاتی تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ بھارت کی نوجوان نسل شدت پسندی کی طرف مائل ہوسکتی ہے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ذاکر نائیک بھارتی انٹیلجنس ایجنسیوں کی نظر میں تب آئے جب بنگلہ دیش کے ایک اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ اس برس یکم جولائی کو ڈھاکہ میں دہشت گردانہ حملے میں ملوث روہن امتیاز نے ذاکر نائیک کا نام استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پروپیگینڈا کیا تھا۔
ذاکر نائیک پر نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں برطانیہ، کینیڈا اور ملائیشیا میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔