1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ذوالفقار علی بھٹو: عوامی لیڈر کے ’عدالتی قتل‘ کو 35 برس بیت گئے

رفعت سعید، کراچی4 اپریل 2014

آج پاکستان کے سابق وزیراعظم اور ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی 35ویں برسی ہے۔ انہیں عدالتی حکم پر چار اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1Bc7g
تصویر: STF/AFP/GettyImages

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 35 ویں برسی کے موقع پر آج ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے گڑھی خدابخش میں ان کی قبر پر حاضر ہوئے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے سیاسی پیروکار جنرل ضیاء الحق، اس وقت کے چیف جسٹس انوارالحق اور مولوی مشتاق کو ان کے عدالتی قتل کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔

فرانسسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے وابستہ سینیئر صحافی اشرف خان کہتے ہیں ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کو پینتیس برس ہوگئے مگران کا نام آج بھی زندہ ہے۔

تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ سیاسی غلطیاں ضرور ہوئیں مگر بھٹو کو پھانسی دینے والے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا پاکستانی سیاست میں ذکر بھی موجود نہیں ہے۔ بھٹو کا جب عدالت میں ٹرائل ہورہا تھا تو ان کے سینکڑوں حامی وہاں پہنچتے تھے۔ لیکن کسی فوجی ڈکٹیٹر کے ٹرائل کے موقع پر اس کی حمایت میں 150 آدمی بھی نہیں ہوتے جس کی مثال جنرل مشرف ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو 2007ء میں راولپنڈی میں قتل کر دی گئی تھیں
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو 2007ء میں راولپنڈی میں قتل کر دی گئی تھیںتصویر: AP

پاکسان پیپلزپارٹی کے بانی رکن اور ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ساتھی معراج محمد خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو عظیم لیڈر تھا پاکستان کی سیاست بھٹو کے بغیر نا مکمل ہے۔

پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اورپیپلزپارٹی کی پوری قیادت کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔

اسی باعث ذوالفقاربھٹو کا کیس ری اوپن کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے دور میں ایک صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا تاہم اب تک اس پر کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق سپریم کورٹ تاریخ کے آئینے میں اپنا ریکارڈ درست کرے اور ماضی کی غلطی پر معافی مانگتے ہوئے بھٹو قتل کیس کا انصاف پر مبنی فیصلہ جلد سنائے۔

بلاول بھٹو نے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ہمارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہم نے بھٹو کا عدالتی قتل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو ایک فلسفے اور نظام کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو ایک اور بھٹو کا انتظار ہے۔

بھٹو مخالف سیاسی جماعتیں 1977ء کی تحریک میں بھٹو کے مظالم اور سیاسی مخالفین کو قتل کروانے کے الزامات لگاتی تھیں مگر ان کی سب سے بڑی سیاسی مخالف جماعت اسلامی کے رہنماء پروفیسر غفور احمد محروم، جنرل ضیاء کی کابینہ میں شامل ہونے کو اپنی جماعت کی سیاسی غلطی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو آج پاکستان سیاست کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں جو کچھ پاکستانی سیاست میں ہوا اس کی گواہی دینے کے لیے بہت کم لوگ زندہ ہیں جن میں سردار شیر باز مزاری عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بستر علالت پر ہیں۔ وہ تمام تر مخالفت اور خامیوں کے باوجود اب بھی کو بھٹو کو ایک عظیم لیڈر مانتے ہیں۔ ان کے ہم عصر بلوچ رہنماء سردار عطااللہ مینگل اب بھی بھٹو کے حوالے سے کسی بھی قسم کی گفتگو کرنے سے گریزاں ہیں تاہم وہ بھی پاکستان کی اصل مشکلات کے ذمہ دار کسی سیاسی رہنما کی بجائے فوجی ڈکٹیٹرز کو قرار دیتے ہیں۔