رائے ونڈ دھماکا، کس کو کیا پیغام دے گیا؟
15 مارچ 2018پچھلے کچھ عرصے میں لاہور میں ہونے والی یہ دہشت گردی کی تیسری واردات ہے، اس سے پہلے مال روڈ کے چئیرنگ کراس چوک اور عارفہ کریم ٹاور کے قریب بھی ایسے دھماکے ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کی تازہ واردات ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب چند ہی روز بعد لاہور میں پاکستان سپر لیگ کے میچز ہونے والے ہیں۔
رائے ونڈ دھماکے کا اصل ٹارگٹ کون تھا؟ اس حوالے سے مختلف تجزیہ نگار مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان سب لوگوں کے مطابق پی ایس ایل، پولیس، رائے ونڈ میں ہونے والے تبلیغی اجتماع کے شرکاء اور میاں نواز شریف اور ان کی حکومت بھی اس دہشت گردی کا ٹارگٹ ہو سکتے تھے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے رائے ونڈ خودکش حملہ بہت ہی عجیب و غریب واقعہ ہے۔ ان کے بقول اس سے پہلے یہ تاثر عام تھا کہ مختلف انتہا پسند گروپ تبلیغی جماعت کو اچھا سمجھتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے اجتماعات کو کبھی بھی دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس لیے اگر پولیس خود کش بمبار کا ٹارگٹ تھی تو پھر یہ دہشت گردی کی روایتی واردات ہو سکتی ہے لیکن اگر تبلیغی جماعت کے لوگ اس کا ٹارگٹ تھے تو پھر یہ بڑی حیرانی کی بات ہے جس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیئں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے کوئی نیا گروپ وجود میں آ گیا ہو۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہ دہشت گردی کی واردات پی ایس ایل کا راستہ روکنے کے لیے ہے؟ تو ان کا کہنا تھا،’’ہاں ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی غیر ملکی کھلاڑیوں کی لاہور آمد کے موقع پر دہشت گردی کی واردات ہو چکی ہے۔ اس لیے اس پہلو کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسی قیاس آرائیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ اس سانحے کی موثر تحقیقات ہوں۔‘‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ٹارگٹ خواہ کوئی بھی ہو لیکن رائے ونڈ دھماکے سے ملنے والا پیغام پاکستان کے حق میں نہیں گیا ہے، ’’اس واقعے کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بیانیے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جن اقدامات کی ضرورت ہے انہیں پوری قومی یکسوئی کے ساتھ سر انجام دیا جائے۔‘‘
پاکستان کے ایک ممتاز دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رائے ونڈ دھماکے سے یہی پیغام ملا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد گروپ اگرچہ کمزور تو ہوئے ہیں لیکن ان کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے، ’’دہشت گرد جب موقع ملتا ہے تو وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ وہ اب بھی کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ دہشت گرد ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہ سے ہو سکتے ہیں، لیکن غیر ملکی دہشت گرد بھی ملک میں موجود نیٹ ورک کے سپورٹ سسٹم کے بغیر کارروائی نہیں کر سکتے۔ اس لیے پاکستان کے خفیہ اداروں کو کسی دہشت گردانہ واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی اس نیٹ ورک کا پتہ چلانا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر عسکری بتاتے ہیں کہ رائے ونڈ جیسی وارداتوں کا اصل میں مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس سے میڈیا ہائپ پیدا کر کے لوگوں کا سیاسی حکومت یا نظام پر اعتماد کمزور کیا جائے۔ رائے ونڈ بم دھماکے کی تحقیقات سے وابستہ ایک سینئر پولیس افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس واردات کے حوالے سے ٹھوس شواہد مل گئے ہیں اور اس واقعے میں ملوث دو مبینہ سہولت کاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس نے دہشت گردی کی اس واردات کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کے تھانے میں درج کروایا ہے اور جائے واردات سے ملنے والے خودکش بمبار کے اعضا کے نمونے مزید تحقیقات کے لیے فرانزک لیبارٹری پہنچا دیے گئے ہیں۔ گزشتہ روز اس خود کش حملے میں6 پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔