راتوں کے چھاپے روکنے تک اسٹریٹیجک شراکت کا معاہدہ نہیں ہوگا، صدر کرزئی
25 دسمبر 2011افغان صدر نے یہ بات کابل میں حکومت کے مقرر کردہ ایک وفد سے بات چیت کے دوران کہی۔ یہ وفد نیٹو کے حالیہ فضائی حملوں اور رات کے وقت مارے جانے والے چھاپوں کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا: ’’وفد کی رپورٹ سننے کے بعد صدر نے کہا کہ نیٹو کی جانب سے من مانی کارروائیاں اور گھروں کی تلاشی لینے کا عمل افغانستان اور نیٹو فورسز کے درمیان ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور یہ امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت کے معاہدے پر دستخط کرنے کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔‘‘
یہ معاہدہ 2014ء میں افغانستان سے بین الاقوامی فورسز کے لڑاکا فوجیوں کے طے شدہ انخلاء کے بعد امریکی فوج اور افغان حکومت کے درمیان تعلقات کا تعین کرے گا۔
افغانستان میں رات کے وقت چھاپوں کا مسئلہ کچھ عرصے سے ایک تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے تاہم پہلی بار صدر حامد کرزئی نے اس پر انتہائی سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
نیٹو نے ان کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ باغی رہنماؤں کو ہدف بنانے کا سب سے محفوظ طریقہ ہیں۔ نیٹو کا اصرار ہے کہ وہ یہ کارروائیاں جاری رکھے گا تاہم ان میں افغان فورسز کو زیادہ تعداد میں شامل کیا جائے گا۔ مغربی دفاعی اتحاد کا مزید کہنا ہے کہ رات کے وقت مارے جانے والے پچاسی فیصد چھاپوں میں ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی اور ان کے باعث بہت کم شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
تاہم صدر حامد کرزئی نے ان کی کھلے عام مخالفت جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے شہریوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہوتی ہیں اور وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ افغان صدر نیٹو سے ان چھاپوں کو روکنے کی بارہا درخواستیں کر چکے ہیں۔
صدر حامد کرزئی کے مقرر کردہ وفد نے قندھار اور کاپیسا صوبوں میں نیٹو کے فضائی حملوں کی تحقیقات کیں جن میں مبینہ طور پر کئی عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیقات میں پکتیا میں چھاپے کی ایک کارروائی بھی شامل تھی جس کے دوران انسداد منشیات کے ادارے کے مقامی اہلکار کی اہلیہ ہو گئی جو حاملہ تھی۔
وفد کے سربراہ محمد طاہر صافی نے کہا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ شہریوں کی ہلاکت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اب ہم اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے۔’’ انہوں نے نیٹو پر الزام لگایا کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے افغان شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: ندیم گِل