راحیل شریف کا نیا منصب، ’اعزاز بھی، باعث تشویش بھی‘
پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی قیادت میں قائم کثیر القومی انسداد دہشت گردی فوج کی سربراہی کریں گے۔ ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان کے علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
’راحیل شریف 39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ‘
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا ہے کہ راحیل شریف کو، جو گزشتہ برس نومبر تک پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز تھے، 39 مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد کی قیادت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو سعودی عرب کی سربراہی میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے متعدد خونریز تنازعات کے حل میں مدد کی جا سکے۔
’اعزاز بھی اور باعث تشویش بھی‘
پاکستان آرمی کےسابق سربراہ کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والی بین الاقوامی انسداد دہشت گردی فوج کی کمان کرنا ایک اعزاز تو ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ اس طرح پاکستان کی اس کثیر الملکی عسکری اتحاد میں شمولیت اسلام آباد کے کئی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کوششیں
جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے آرمی چیف کے طور پر دور میں ہی پاکستان کے افغان سرحد کے ساتھ ملحقہ قبائلی علاقوں میں اس ملٹری آپریشن کو بھرپور اور نتیجہ خیز حد تک آگے بڑھایا گیا تھا، جس کا مقصد تب کافی حد تک لاقانونیت کے شکار ان پاکستانی قبائلی علاقوں سے اسلام کے نام پر عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینے والے شدت پسندوں کا خاتمہ کرنا تھا۔
اندازے درست ثابت ہوئے
نومبر 2015ء میں راحیل شریف ابھی پاکستانی فوج کے سربراہ کے عہدے سے رخصت نہیں ہوئے تھے کہ تب ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں سعودی سربراہی میں عسکری اتحاد کا کمانڈر بنا دیا جائے گا۔
باضابطہ اعلان جلد ممکن
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق راحیل شریف کو تین درجن سے زائد مسلم ممالک کے اس عسکری اتحاد کا فوجی کمانڈر بنانے کا فیصلہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد اگلے چند روز میں باضابطہ شکل اختیار کر لے گا۔
ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے جائیں گے
پاکستان شروع میں تو اس سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت سے گریزاں تھا لیکن پھر بعد میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اس فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی تصدیق تو کر دی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد حکومت اس اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے کوئی ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے گی۔
پاکستان پر ممکنہ اثرات کیا ہوں گے؟
ناقدین کے مطابق اس بین الاقوامی عسکری اتحاد کی قیادت راحیل شریف کو سونپنے کے فیصلے کے پاکستان میں نظر آنے والے ممکنہ اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اتحاد متنازعہ ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ریاض اور تہران کے مابین واضح اور شدید کھچاؤ پایا جاتا ہے اور ایران اس عسکری اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔
راحیل شریف کی پاکستان میں مقبولیت
راحیل شریف پاکستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ایک کامیاب، پُرعزم اور قابل تحسین شخصیت کی حیثیت سے عوام اور پاکستانی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
کامیاب فوجی جنرل
راحیل شریف پاکستانی فوج کے 15ویں سربراہ تھے۔ گزشتہ برس انتیس نومبر کو ریٹائر ہونے والے راحیل شریف نے ستائیس نومبر سن دو ہزار تیرہ میں پاکستانی فوج کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔
عالمی سطح پر پذیرائی
راحیل شریف نے جب پاکستانی فوج کی قیادت سنبھالی تھی تو پاکستان میں امن و سلامتی کی صورتحال ابتر تھی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی اور سول حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کو جاری رکھا۔ ان کوششوں پر انہیں عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے۔ اس تصویر میں راحیل شریف جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈیر لاین کے ہمراہ نظر آ رہے ہیں۔