راستہ بھٹک جانے والی نابینا ڈولفنز کی تلاش جاری
13 جنوری 2022
پاکستان کے جنوب مشرقی صوبہ سندھ کی نہروں میں امدادی کارکن ان دو درجن سرمئی ڈولفنز کو نہروں میں تلاش کر رہے ہیں جو پانی میں اپنا راستہ بھٹک گئی تھیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ناپید ہونے کے خطرے سے دو چار یہ ڈولفنزعام طور پر میٹھے پانی کو اپنا مسکن بناتی ہیں۔
صوبائی محکمہ جنگلی حیات کے ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حامد نے کہا ہے کہ اب تک ان بھٹکی ہوئی ڈولفنز میں سے تین کو بچا لیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تقریباﹰ 27 ایسی بلائینڈ ڈولفنز صوبہ سندھ کے دادو کینال میں خوراک کی تلاش میں اپنے مسکن سے 70 کلومیٹر دورنکل گئی تھیں۔
ڈولفن کی یہ نسل دنیا میں میٹھے پانی کی دوسری سب سے زیادہ خطرے سے دوچار قسم ہے۔ دنیا بھر میں انہیں نابینا ڈولفن کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی آنکھوں کے ریٹینا پر واضح تصاویر نہیں دیکھ سکتیں تاہم روشنی کا اندازہ لگا سکتی ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نے شدید خطرے سے دوچارجانوروں کی اپنی فہرست میں ان ڈولفنز کو بھی شامل کیا ہے۔ گزشتہ ماہ حکام نے پھنسی ہوئی ان ڈولفنز کے بارے میں ریڈ الرٹ جاری کیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک ریسکیو ہاٹ لائن بھی قائم کی گئی ہے جو مقامی لوگوں کے لیے 24 گھنٹےکام کرےگی تاکہ وہ پھنسی ہوئی ڈولفنز کی نشاندہی کی اطلاع متعلقہ حکام کو بروقت دے سکیں۔ 250 سے زائد رضاکاروں پر مشتمل ایک ٹیم کے ساتھ 20 غوطہ خور بھی ان امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
یہ دانتوں والی اور معدومیت کے خطرے سے دوچار ڈولفن کی نسل پاکستان میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اب مختلف وجوہات کی بنا پردریائے سندھ اور بھارت کے کچھ حصوں میں ان کے مسکن سکڑ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی بقا کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ملک میں ڈولفن کے شکار پر پابندی عائد کی گئی ہے، لیکن یہ کبھی کبھار مچھلی پکڑنے والے جال میں پھنس جاتی ہیں اور یہی ان کی تعداد کم ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دریائے سندھ میں 1,800 سے زیادہ نابینا ڈولفن تھیں۔ عدنان حامد کا کہنا ہے کہ اب نابینا ڈولفنز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اوراس کی بنیادی وجہ ان کے تحفظ کے لیے کی جانے والی بھرپور کوششیں ہیں۔
قمر زمان (رب/ک م)