رام مندر کے سنگ بنیاد کی گھڑی شُبھ ہے یا اَشُبھ
4 اگست 2020ملک کے بڑے پنڈتوں، ستارہ سناشوں، پجاریوں اور ہندو مذہبی رہنماوں نے ستاروں کی گردش پر کافی غور و خوض کرنے کے بعد پانچ اگست کی 'مہورت‘ نکالی۔ تاہم میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کو شبھ گھڑی یعنی مبارک ساعت صرف 32 سیکنڈ کی ہوگی جو دوپہر12 بجکر 44 منٹ 8 سیکنڈ سے شروع ہوگی اور 12 بجکر 44 منٹ 40 سیکنڈ پر ختم ہوجائے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی اس مبارک ساعت میں مندر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ تاہم متعدد پنڈتوں اور ہندو سیاسی رہنماوں نے اس مبارک ساعت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
ہندووں میں انتہائی معتبر اور قابل احترام سمجھے جانے والے شنکرآچاریاوں میں سے ایک سوامی سوروپ آنند سرسوتی کا کہنا تھا کہ'مندر کی تعمیر درست طریقے سے ہونی چاہیے اور اس کا سنگ بنیاد بھی درست وقت پر رکھا جانا چاہیے۔‘ سوامی سوروپ آنند کے مطابق جو تاریخ طے کی گئی ہے وہ’اشبھ گھڑی‘ ہے۔
دوسری طرف مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی اور کانگریس کے رکن پارلیمان دگ وجے سنگھ نے بھی سنگ بنیاد کی تقریب کو موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے نام ایک بیان میں کہا”مودی جی، آپ مزید کتنے لوگوں کو سنگ بنیاد کے لیے ہسپتال بھیجنا چاہتے ہیں؟ یوگی جی آپ برائے کرم وزیر اعظم سے بات کریں۔ آپ ہندو مذہبی روایات کو کیوں توڑ رہے ہیں؟ آخر مجبوری کیا ہے؟"
دگ وجے سنگھ نے مزید کہا ”سنگ بنیاد کی مجوزہ تقریب سے وابستہ ایک پجاری کی موت ہوچکی ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ اور اترپردیش بی جے پی کے سربراہ کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ کیا اترپردیش کے وزیر اعلی اور وزیر اعظم کو خود کو 14 دنوں کا قرنطینہ میں نہیں جانا چاہیے تھا؟ کیا یہ ضابطہ صرف عام آدمی کے لیے ہے؟"
رام مندر تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل کا کہنا ہے کہ وہ سادھووں اور سنتوں کے بیان پر کوئی تبصر ہ نہیں کریں گے لیکن جو 'مہورت‘ نکالی گئی ہے وہ اس کو درست مانتے ہیں۔
کپڑے کے رنگ پر بھی تنازعہ
بھگوان رام کے کپڑے پر بھی تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ بھگوان رام کی مورتی کو بدھ کے روز ہرے رنگ کے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ چونکہ بھارت میں بعض ہندو اس رنگ کو مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اس لیے انہوں نے اعتراض کیا ہے۔ تاہم رام مندر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری چمپت رائے نے اس طرح کے اعتراضات کو ’دانشورانہ دیوالیہ پن‘ قرار دیا اور کہا کہ ’درختوں کی ہریالی کیا اسلام ہے؟ ہری ساگ اور سبزیاں کیا اسلامی کھانا ہے؟ یہ تو بھارت او رپوری دنیا میں خوشحالی کی علامت ہے۔‘ چمپت رائے کا مزید کہنا تھا کہ بھگوان رام کس دن کس رنگ کے کپڑے پہنیں گے یہ پجاری طے کرتے ہیں اور یہ روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ سبز رنگ خوشحالی کی علامت ہے۔
بدھ پانچ اگست کو سنگ بنیاد رکھنے کی اصل تقریب سے قبل پوجا پاٹھ کا سلسلہ پیر کے روز سے ہی شروع ہوچکا ہے اور آج منگل کو بھی جاری ہے۔ تقریباً دو درجن پجاری منتروں کا مسلسل جاپ کر رہے ہیں۔
تقریب میں شرکت کے لیے صرف 175 افراد کو دعوت دی گئی ہے، ان میں سے 135 ہندو مذہب کے مختلف پنتھ یعنی مسلک کے ماننے والے نامور سادھو سنت ہیں۔ ڈائس پر وزیر اعظم مودی سمیت صرف پانچ لوگ بیٹھیں گے۔ ان میں اترپردیش کی گورنر آنندی بین پاٹل، اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ، ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کے سب سے بڑے مہنت نرتیہ گوپال داس شامل ہیں۔ جن دیگر شخصیات کو مدعوع کیا گیا ہے ان میں یوگا گرو بابا رام دیو اور آرٹ آف لیونگ کے سری سری روی شنکر، بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والے اقبال انصاری، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا شامل ہیں۔
وزیر داخلہ امیت شاہ بھی مدعو تھے لیکن وہ کورونا کا شکار ہوجانے کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ سنگ بنیاد کی تقریب میں حصہ لینے والے رام مندر کے سب سے بڑے پجاری مہنت ستیندر ناتھ کو قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔ ان کے ایک شاگرد پردیپ داس کے علاوہ سکیورٹی پر تعینات سولہ اہلکار بھی پچھلے دنوں کورونا پازیٹیو پائے گئے تھے۔ اب ستیندر ناتھ کے دوسرے شاگرد سنتوش پوجا کرائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رام مندرکی تحریک کے روح رواں اور سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی،ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی اور کلیان سنگھ جیسے رہنماوں کو دعوت نہیں دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کووڈ پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے انہیں مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ اس پروٹوکول کے مطابق 65 برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مودی اور بھاگوت کو کیوں اجازت دی گئی جب کہ دونوں کی عمر 69 برس ہے۔
رام مندر کے سنگ بنیاد کی یہ تقریب ایسے وقت منعقد کی جارہی ہے جب پورا ملک کورونا وائرس کی وبا کی زد میں ہے۔ اس وبا سے اب تک 18 لاکھ 58 ہزار افراد متاثر اور 39 ہزار سے زیادہ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ بہت ساری ملازمتیں اور کاروبار ختم ہوگئے ہیں۔ ملک کی معیشت بری طرح تباہی سے دوچار ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان سب کے باوجود اس وقت تقریب کے انعقاد کے خلاف کچھ بھی بولنے سے گھبرارہی ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہے کہ اس سے انہیں سیاسی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔