1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی‘

29 دسمبر 2018

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں ابھی حال ہی میں بھارتی فوج اور عسکریت پسندوں کے مابین مسلح جھڑپوں میں عام شہریوں کی جس طرح ہلاکتیں ہوئیں وہ کسی خوشگوار سال کی نوید نہیں ہو سکتیں۔

https://p.dw.com/p/3AkuZ
تصویر: DW/P. Henriksen

نیا سال نئے جوش و ولولے ساتھ لے کر آتا ہے۔ ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاندان خاص طور سے بچوں کی معصوم خواہشات، جس حد تک ممکن ہو پوری کر ے۔ کھیل کود کے سامان اور تفریحی سرگرمیوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تمام والدین نئے سال کی منصوبہ بندی کرتے ہیں یا ایسا کچھ کرنا چاہتے ہیں جو اُن کے بچوں کے روشن مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ مغربی معاشروں میں نئے سال کی آمد پر زیادہ تر لوگ تعطیلات گزارنے کے لیے کسی دوسرے شہر یا ملک کا انتخاب کرتے ہیں۔

اس بار میں نے اپنی سات سالہ بیٹی سے پوچھا کہ اس بار نیا سال منانے کے لیے ہم کہاں چلیں؟ لندن، پیرس، بارسلونا، برلن یا کہیں اور؟ میری بیٹی نے جواب میں کہا،’’ماما مجھے اپنی چھٹیاں گھر میں رہ کر گزارنی ہیں۔ میں آپ اور بابا کے ساتھ زیادہ وقت اپنے گھر میں گزارنا چاہتی ہوں۔ بقول اُس کے ،’’ گھر سب سے کوزی جگہ ہے، میں اپنی ان مچھلیوں کو، جو اکویریم میں ہیں، تنہا چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں؟ سب سے زیادہ مزہ گھر پر آتا ہے۔ بس ہم کہیں نہیں جائیں گے گھر پر فیملی ٹائم انجوائے کریں گے‘‘۔

جس وقت میری بیٹی یہ باتیں کر رہی تھی، حسب معمول میرا آئی فون میرے ہاتھ میں تھا اور میری نگاہیں مختلف خبروں پر تھیں۔ اچانک میری نظر سے ایک رپورٹ گزری، جس کا تعلق عرب دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ’یمن‘ سے تھا۔ روئٹرز کی اس رپورٹ کا عنوان تھا،’’یمنی مائیں غذائی قلت اور بھوک کے بدترین بحران کے سبب اپنے بچوں کو لقمہ اجل بننے دینے پر مجبور‘‘۔ اس رپورٹ کی جو عنوانی تصویر تھی، اُس نے جیسے میرے ذہن کو کچھ دیر کے لیے مفلوج کر دیا۔ تصویر میں نادیہ نہاری نامی ایک یمنی ماں اپنے پانچ سالہ بچے کو گود میں لیے کھڑی ہے، نقاہت کا شکار یہ بچہ ماں کے کندھے  پر سر رکھے ہوئے ہے اور اس کی برہنہ پیٹھ کسی درخت کی سوکھی چھال جیسی نظر آ رہی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی بالکل نمایاں ہے اور ایک ایک پسلی گنی جا سکتی ہے،  دو تین پیراگراف پڑھنے کے بعد میں اسے مزید نہ پڑھ سکی۔ میرے فہم و ادراک پر ہتھوڑے برسنے لگے، جسم میں جیسے کسی نے بجلی دوڑا دی ہو۔ میری بیٹی نے مجھے جھنجھوڑا، ’’ ماما آپ پھر مصروف ہو گئیں اپنے کام میں، مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتیں؟‘‘۔

میرے دماغ میں جیسے تمام ایسی تصاویر اور ویڈیوز کے سین تیزی سے گھومنے لگے جیسے حقیقت میں مجھے یہ مناظر دیکھنے کو مل رہے ہوں۔ میں نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا جو اکویریم میں دوڑتی بھاگتی رنگین مچھلیوں سے باتیں کر رہی تھی، ان سات مچھلیوں میں سے ہر ایک کا ایک نام بھی اس نے رکھا ہوا ہے۔ کہتی ہے ’’ماما یہ بہت پیاری ہیں، اگر ہم انہیں گھر پر چھوڑ کر چھٹیاں منانے کہیں چلے گئے اور میری ان ننھی منی دوستوں کو کچھ ہو گیا تو ؟‘‘

میرے پاس اس سادہ سے سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ میرے ذہن پر یمن کی نادیہ نہاری جیسی ان گنت ماؤں کی تصویریں گھوم رہی تھیں اور میرے کانوں میں ان کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔ ان سسکیوں میں اقوام عالم سے کیا جانے والے ایک سوال چھپا ہے۔ ’’بھوک اب  میرے کس بچے کو نگلنے والی ہے؟‘‘

صحافی ہونے کے ناطے خبروں پر نظر رکھنا کیونکہ میری ذمہ داری ہے اس لیے کتنی بھی کوشش کر لوں ہر طرح کی خبروں کے طوفانی سلسلے سے بچ نہیں پاتی۔ ابھی میں یمن کی مذکورہ رپورٹ کے گہرے اثرات سے باہر نکل بھی نہیں پائی تھی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک اور تصویر نے مجھے اپنے اندر جذب کر لیا۔ یہ تصویر میری بیٹی ہی کی ہم عمر ایک شامی بچی کی ہے، جس کے رخساروں پر آنسوؤں کی لڑیاں لٹک رہی ہیں مگر وہ لبوں سے مسکراہٹ کا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ریت میں اٹے سنہری بال ہلکی بھوری آنکھیں۔ اسی بچی کو پانی سے دھو دیا جائے تو یہ ہاتھوں سے بنائی اور سجائی ہوئی گڑیا نظر آئے۔ یہ اور اس جیسے لاکھوں بچے شام میں سات سال سے جاری جنگ کا شکار ہو کر یتیمی، کسمپرسی، جسمانی اور نفسیاتی کرب سے گزرتے ہوئے نامعلوم منزل کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

نہ جانے ان بچوں کی فیملی کے کتنے افراد شام کی جنگ میں اب تک لقمہ اجل بن چُکے ہوں گے؟ مختلف ذرائع کے اندازوں کے مطابق مارچ 2011 ء سے جاری اس جنگ میں اب تک کم از کم ساڑھے پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔

شام میں موجود اور اپنی بقاء کی جنگ لڑنے والے وہ لاکھوں بچے جو اب دیگر ممالک میں پناہ کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، انہیں اور ان کے والدین کو یکم جنوری 2011 ء سے پہلے کیا پتہ تھا کہ آئندہ سالوں میں وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گے؟

2108 ء کا اختتام دنیا کے متعدد خطوں میں خونریزی، قتل و غارت گری اور نہتے انسانوں کے بہیمانہ قتل سے عبارت ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں ابھی حال ہی میں بھارتی فوج اور عسکریت پسندوں کے مابین مسلح جھڑپوں میں عام شہریوں کی جس طرح ہلاکتیں ہوئیں وہ کسی خوشگوار سال کی نوید نہیں ہو سکتیں۔ ان تازہ ترین واقعات میں نوجوانوں اور معمر افراد سے لے کر شیر خوار بچوں تک کا خون جس طرح بہا ہے، اسے آنے والے سال کے لیے نیک شگن نہیں کہا جا سکتا۔

ایسے اور دنیا کے دیگر خطوں میں پائی جانے والی انسانی حقوق کی صورتحال کے پس منظر میں، میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ سال نو کا استقبال کس طرح کروں؟

پچھلا برس تو خون رلا کر گزر گیا

کیا گُل کھلائے گا یہ نیا سال دوستو