1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ربانی برادران گوانتانامو بے جیل سے رہا، جلد پاکستان منتقلی

24 فروری 2023

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ربانی برادران کو گوانتانامو بے جیل میں بیس برس قید کے بعد رہا کرکے پاکستان منتقل کیا جارہا ہے۔ القاعدہ کے اہم رہنماوں کی سہولت کاری کے الزام میں انہیں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4Nv4J
Bildergalerie Die Hochsicherheitsgefängnisse der Welt | Camp Delta, USA
تصویر: Getty Images/J. Raedle

ان دونوں بھائیوں، 55 سالہ عبدالرحیم غلام ربانی اور 53 سالہ محمد احمد غلام ربانی، کو پاکستانی حکام نے سن 2002 میں ان کے آبائی شہر کراچی سے گرفتار کیا تھا اور امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ان دونوں نے القاعدہ کے اہم رہنماوں کو مالی اور سفری سہولت فراہم کیی تھیں۔

امریکی حکام نے ربانی برادران پر نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے لیے کام کرنے اور کراچی میں القاعدہ کو اپنی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ فراہم کرنے کا بھی الزام لگایا تھا۔ لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ ان دونوں بھائیوں کی القاعدہ کی کارروائیوں کے منصوبوں تک رسائی تھی۔

پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان گوانتانامو بے جیل سے رہا، بیلیز منتقل

ان دونوں بھائیوں نے گوانتانامو بے منتقل کیے جانے سے قبل سی آئی اے کی حراست میں انتہائی اذیت دیے جانے کے الزامات عائد کیے تھے۔ امریکی ملٹری ریکارڈز کے مطابق پوچھ گچھ کے باوجود ان سے کوئی زیادہ اہم معلوما ت نہیں حاصل ہو سکیں۔

امریکی حکام نے ربانی برادران پر نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے لیے کام کرنے کا بھی الزام لگایا تھا
امریکی حکام نے ربانی برادران پر نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے لیے کام کرنے کا بھی الزام لگایا تھاتصویر: Pentagon/ZUMA/picture alliance

پاکستان منتقلی کی شرطیں فی الحال معلوم نہیں

امریکی فوج نے ایک بیان میں ان دونوں کو منتقل کرنے کا اعلان کیا تاہم یہ نہیں بتایا ہے کہ پاکستان نے کن شرطوں پر ان کی واپسی قبول کی ہے۔

سمجھا جاتا ہے کہ عبدالرحیم غلام ربانی گوانتانامو بے جیل سے رہائی پانے والے معمر ترین قیدیوں میں سے ایک ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے ایک بیان میں کہا، "امریکہ حکومت پاکستان اور دیگر شراکت داروں کی جانب سے قیدیوں کی تعداد کو ذمہ دارانہ طور پر کم کرنے اور بالآخر گوانتاناموبے کی سہولت کو بند کرنے پر مرکوز امریکی کوششوں کی حمایت کو سراہتا ہے۔"

'بغیر جرم کے 20 برس قید'

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق رواں برس 27 جنوری کو اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں گوانتانامو بے جیل میں قید پاکستانیوں کامعاملہ زیر غور آیا تھا۔ اور شرکا کو بتایا گیا تھا کہ اس قید خانے سے دو پاکستانی بھائیوں کو مارچ میں رہا کیا جائے گا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ ربانی برادران پر کوئی مقدمہ نہیں، نہ ان پر کوئی جرم ثابت ہوا، انہیں بغیر کسی جرم کے گوانتانامو بے جیل میں 20 سال سے قید میں رکھا گیا ہے۔

گوانتا نامو میں قید پاکستانی کی حراست غیر قانونی ہے، اقوام متحدہ

وزارت خارجہ امور کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ ربانی برادران کی واپسی کا عمل فروری کے آخر تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد وہ پاکستان پہنچ جائیں گے۔

گوانتانامو بے جیل کو'دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ' کے دوران کی جانے والی زیادتیوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے
گوانتانامو بے جیل کو'دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ' کے دوران کی جانے والی زیادتیوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہےتصویر: T. McCoy/U.S. Navy/Getty Images

گوانتانامو بے جیل 'امریکی زیادتیوں کی علامت'

عبدالرحیم غلام ربانی اور محمداحمد غلام ربانی گوانتانامو جیل سے رہائی پانے والے تازہ ترین قیدی ہیں۔ کیوبا میں امریکی بحریہ کے ایک اڈے پر واقع یہ بدنام زمانہ جیل جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001کے القاعدہ کے حملوں کے بعد گرفتار مشتبہ دہشت گردوں کو رکھنے کے لیے قائم کیا تھا۔

پنٹاگون نے بتایا کہ ان دونوں پاکستانی بھائیوں کی رہائی کے بعد گوانتا ناموبے میں قید افراد کی مجموعی تعداد کم ہو کر 32 رہ گئی ہے۔ جن میں سے 18 اپنے ملکوں میں منتقل کیے جانے کے اہل ہیں۔ نو قیدیوں کے امریکی فوجی کمیشنوں میں مقدمات چل رہے ہیں اور دو کو سزا ہو چکی ہے۔

گوانتانامو بے جیل کو'دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ' کے دوران کی جانے والی زیادتیوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیوں کہ یہاں تفتیش کے لیے ایسے سخت طریقے استعمال کیے گئے جنہیں ناقدین تشدد قرار دیتے ہیں۔

صدر بائیڈن گوانتانامو بے جیل بند کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں، ایمنسٹی انٹرنیشنل

جو بائیڈن نے سال 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اس جیل کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم امریکی وفاقی حکومت اس حراستی مرکز کے قیدیوں کو قانوناً امریکی جیلوں میں منتقل نہیں کر سکتی۔

 ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)