ربر کے آلے سے ’پرندوں کے گیتوں‘ کی نقل
3 جنوری 2011محققین کے مطابق ربر کے اس سادہ آلے کو پرندوں میں آواز پیدا کرنے والے نظام کی طرح بنایا گیا ہے۔ اس آلے سے ہوا گزاری جاتی ہے، تو یہ بالکل ویسی ہی آواز پیدا کرتا ہے، جیسی آواز کسی پرندے کی چونچ سے نکلتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اس ایجاد سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پرندوں کی آوازوں کا محرک ان کا پیچیدہ اعصابی نظام نہیں بالکل ان کے گلے میں موجود ایک نہایت سادہ صوتی نظام ہوتا ہے اور اسی نظام کے تحت مختلف پرندے مختلف آوازیں پیدا کرتے ہیں۔
اس تحقیق میں مصروف حیاتیات دانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اب وہ جلد ہی یہ پتہ چلا لیں گے کہ پرندے اتنے مشکل اور پیچیدہ ’گیت‘ کیسے گا لیتے ہیں۔
ہاورڈ یونیورسٹی سے منسلک اس تحقیقی ٹیم سے وابستہ اریش مکھرجی کے مطابق اس سے پہلے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ پرندوں کے گیت جیسا ایک مکمل نغمہ ایک سادہ سے آلے کی مدد سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
’ہم اس آلے سے کھیلنے میں مصروف تھے۔ میں نے اس آلے کو مختلف اطراف سے دیکھا اور ہوا کے اس آلے سے گزرنے پر یہ آلہ خود بخود ویسی ہی آواز پیدا کرنے لگا، جیسی پرندوں سے سنی جاتی ہے۔ میرے لئے یہ واقعی بہت دلچسپ ہے۔‘
مکھرجی نے مزید بتایا کہ یہ آلہ نہایت سادہ ہے اور اس کو بنانے میں ایک چھوٹی سی موٹر اور ربر کے صرف دو ٹکڑے استعمال کئے گئے ہیں۔ ان ٹکڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جوڑا گیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت مختصر سا خلا بھی موجود رہے۔ اسی خلا کے سائز سے مختلف طرح کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔
’جب ہوا ربر کے ان ٹکڑوں کے درمیان سے گزرتی ہے، تو موٹر بالکل وہی کام سرانجام دیتی ہے، جیسا کسی زندہ جسم میں مسلز کرتے ہیں۔ حیاتیاتی زبان میں آواز کا محرک بننے والا نظام ٹریکٹ کہلاتا ہے۔ اسی کی وجہ خلوی دیواروں کے درمیان لچکدار تصادم ہوتا ہے۔ اگر ان خلوی دیواروں کو تناؤ میں مبتلا کر دیا جائے اور پھر خاص انداز سے حرکت دی جائے، تو ارتعاش پیدا ہوتی ہے اور یہ ارتعاش آواز کا باعث بنتی ہے۔ ‘
رپورٹ عاطف توقیر / خبررساں ادارے
ادارت ندیم گِل