1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رشتے ناطے نبھانا اب قطعاً ضروری نہیں رہا

6 جون 2021

بدلتا وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے، یہ درست نہیں کیونکہ اصل میں ہماری خواہشات اورترجیحات بدل جاتی ہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہا کریں۔ اپنوں کا دکھ بانٹیں۔رتبہ اوردولت کسی کام نہیں آتی۔ طاہرہ سید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3uUIn
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

بچپن کے سنہری دن یاد کروں تو دادی کے گھر کی رونق آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پہ مسکان لے آتی ہے. برآمدے میں رکھے تخت پر براجمان دادی اماں اکثروبیشتر کسی نہ کسی مہمان کے ساتھ گفتگو میں مصروف نظر آتیں۔

 بھری دوپہر ہو یا شام کا وقت، آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلائے بغیر جانے دینے کا کوئی تصور نہ تھا۔ اور اتوار کے دن تو اکثر َرشتہ داروں کا میلہ لگا رہتا تھا. ایک جاتا، دوسرا آتا. کسی کو یہ وضاحت دینے کی ضرورت نہ تھی کہ کیسے آنا ہوا. ملنا ملانا مشرقی روایات کا حصہ رہا ہے جسے آج کے مشینی دور میں ایک بوجھ سمجھا جانے لگا ہے. رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے کسی میت یا شادی کے موقعے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا. مجھے اشفاق احمد کا بیان کردہ وہ واقعہ اکثر یاد آجاتا ہے کہ جب ایک فوتگی کے موقعے پر انہوں نے کچھ بچوں کو بات کرتے سنا جو کہہ رہے تھے کہ ''جب کوئی فوت ہو جائے تو بڑا مزہ آتا ہے. ہم سب اکھٹے ہوجاتے ہیں اور سارے رشتہ دار ملتے ہیں. دوسرا بچہ یہ اندازہ لگانے لگا کہ اب کون فوت ہو گا. نانا نصیرالدین یا پھوپی زہرہ اور اب ہم کس رشتہ دار کے گھر اکٹھا ہوں گے اور خوب کھیلیں گے۔‘‘  یعنی ملاقاتیں کسی کے فوت ہوجانے کی مرہون منت رہ گئی ہیں. وہ بھی صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی بمشکل وقت نکالا جاتا ہے۔

گھر تو آخر اپنا ہے

آج کے دور میں جس قدر سہولیات میسر ہیں اسی قدر ہر شخص وقت کی کمی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ خوشی غمی کے موقع پر قریبی رشتہ داروں کا قیام آج کے مشینی دور میں ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔


عید کے تہوار کے موقع پر ایک دوسرے کو یاد رکھنا اور دور دراز رشتے داروں کو عید کارڈ بھیجنے جیسی خوب صورت روایت بھی اب دم توڑ چکی ہے۔ ای- کارڈز اور برقی پیغامات میں وہ احساسات کی گرمی محسوس نہیں کی جا سکتی جو اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے اور لکھے ہوئے کارڈ کے ذریعے پہنچائی جاتی تھی۔ ٹیکنالوجی نے جب دنیا کو گلوبل ولیج نہیں بنایا تھا تب گھر دور تھے لیکن دل قریب تھے۔

مجھے کراچی کے وہ دن بھی یاد ہیں جب اچانک ہنگامے پھوٹ پڑتے اور پورا محلہ کسی ایک مضبوط عمارت والے محلے دار کے گھر پناہ لے لیتا تھا. اس علاقے کے رہنے والوں کو حالات خراب ہونے کی اطلاع بجلی کے کھمبے بجا کردی جاتی تھی۔ فوری طور پر تمام خواتین اور بچے گھر کی نچلی منزل پر اور مرد حضرات اوپری منزل پر دفاعی پوزیشن سنبھال لیتے تھے. آس پاس کے تمام گھر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے اور کسی بھی ضرورت پڑنے پر سب ایک دوسرے کی مدد کے لیے موجود ہوتے۔

چترال کی حسین آنکھ کا پھیلتا ہوا کاجل


آج اگر دیکھا جائے تو عجب دور پرُفتن ہے. سوشل میڈیا پر تو آپ کے ہزاروں دوست موجود ہوں گے لیکن حقیقی زندگی میں تنہائی کا زھر ڈس رہا ہے۔ ہر شخص موبائل کی پُر فریب دنیا میں ایسے گم ہے کہ اردگرد کے رشتوں کا احساس بھلا بیٹھا ہے۔ آج کے دور میں تعلقات کی نوعیت یا تو کاروباری ہوتی ہے یا پھر کسی مفاد سے وابستہ ہوتی ہے۔ لہذا اب خوشی اور غمی کے مواقع پر آپ کے اردگرد موجود ہجوم ان موقع پرست لوگوں کا ہوگا جن کے مفاد آپ کی ذات سے وابستہ ہیں۔

آج کے دور میں بزرگوں کے تجربے یا ان کی دور اندیشی سے فیض نہیں اٹھایا جاتا بلکہ مشورہ بھی اُن ہی سے لیا جاتا ہے جن کا اسٹیٹس ہائی ہو۔ ملنا ملانا، تعلقات بنانا، تحائف کے تبادلے اور تقریبات میں شرکت کے معیار اب بالکل تبدیل ہوچکے ہیں۔ عید کے تہوار پر اگر کوئی بھولے بھٹکے کم اسٹیٹس رکھنے والا رشتہ دار کال کرکے ملنے کی خواہش کا اظہار کرے تو فوراً کہا جاتا ہے کہ آج تو ہم گھر پہ نہیں ہیں اور اگر بنا بتائے کوئی آ دھمکے تو ایسے تاثر دیا جائے گا کہ آنے والا خود ہی جانے کے لیے پر تول لے۔

جھانسی کی رانی سے پونم پنڈت تک


عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہروں میں لوگ ایک دوسرے سے مفاد کا رشتہ رکھتے ہیں۔ لیکن گاؤں کے لوگ اس مادہ پرستانہ سوچ سے بچے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اس سوچ کی بھی نفی ہوئی جب طویل عرصے کے بعد اپنے آبائی گاؤں جانا ہوا ۔ جانے سے پہلے آنکھوں میں وہی بچپن کا گاؤں بسا ہوا تھا۔ تصور میں گاؤں کی کچی گلیاں، پانی کے کنویں پر گھومتی چرخی، سوندھی مٹّی سے لیپے ہوئے مکان تھے. ٹانگہ کی سواری کرتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں اور پہیوں سے آنے والی آواز ہمارے کانوں میں موسیقی کی طرح بج رہی تھی۔ لیکن گاؤں پہنچتے ہی ہمارے تصور کا بت چکنا چور ہوا۔ مٹی کی سوندھی خوشبو لٹاتے مکانوں کی جگہ گارے اور سیمنٹ کے پکے مکان ہمارا منہ چڑا رہے تھے۔ تانگے کی سواری کیجائے ڈاٹسن اور بسیں دھواں اڑاتی بھاگی چلی جا رہی تھیں۔ یہاں تک تو درست ہے کہ گاؤں کی زندگی میں بھی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور ترقی کے رنگ نظر آنے لگے ہیں۔ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمیں اخلاقی قدروں میں بھی بہت تبدیلی نظر آئی۔ اب وہاں روایات کم اور پیسہ زیادہ اہم نظر آیا۔ بزرگوں کی جو عزت اور مقام ماضی میں تھی وہ اب دولتمندوں اور اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں کے حصے میں آ چکی ہے۔ فیصلے کا اختیار بھی دولت مند کو ہے تو مشورہ کرنے کا اہل بھی اسی کو سمجھا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بھی 'وی آئی پی پروٹوکول‘  والے مہمانوں کے لیے الگ سے انتظام کرکے ان کی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ جبکہ غریب رشتے داروں کو بادل ناخواستہ بلا لیا جاتا ہے۔

دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت
خواتین کے ایک گروپ میں آپس کی بات چیت کے دوران رشتہ داروں کے سلوک اور تحفے تحائف کے تبادلے پر گروپ اراکین کا اظہار خیال نظر سے گزرا۔ تقریباً 50 سے زائد گروپ ممبران نے اپنے تجربات اور خیالات کا اظہار کیا۔ تقریباً سب ہی اپنے رشتے داروں سے نالاں نظر آئے۔ سب نے ایک ہی شکایت کی کہ جب بھی ہم نے اپنے رشتہ داروں کو تحائف دیے تو بدلے میں ہمیں کمتر تحفہ دیا گیا۔ تمام گروپ ممبران کے خیالات نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کہ پھر غلطی کس کی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ تحفہ دیتے ہوئے بھی یہی سوچ ذہن میں رہتی ہے کہ اس سے زیادہ قیمتی تحفہ ہمیں واپس ملنا چاہیے۔ اور جب توقعات ٹوٹتی ہیں تو پھر ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ پھر بہتر یہ لگتا ہے کہ رشتہ داروں سے ملنے ملانے کیبجائےارتغرل دیکھ کر ٹائم پاس کر لیا جائے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ہم نے اپنی ترجیحات تبدیل کردی ہیں۔ رشتے ناطے نبھانا قطعی اہم نہیں رہا۔ پیسے اور رتبہ کے زعم میں انسانی تعلقات اور رشتوں کی اہمیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ نازک اور نا قابل اعتبار شے انسانی رشتے ہیں۔ اگر ان رشتوں میں خلوص اور بے غرضی نہ ہو تو ان سے زیادہ ناپائیدار کوئی دوسری شے نہیں۔ مطلب کے، مفاد کے رشتے ہمیشہ تکلیف ہی پہنچاتے ہیں۔ پیسے اور رتبے سے بنائے گئے رشتوں کی اصلیت تو اس وقت معلوم ہوتی ہے جب یہ دونوں چیزیں نہیں رہتیں۔

کامیاب عورت اور ناکام ازدواجی زندگی


وقت کو یہ الزام اکثر دیا جاتا ہے کہ بدلتا وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو وقت اور زمانہ تو خواہ مخواہ بد نام ہے. اصل میں تو ہماری خواہشات اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ رشتے وہی خوبصورت ہوتے ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ بدلتے نہیں ۔ ہمارے معاشرے میں یہ روش عام ہو چکی ہے کہ جیسے ہی انسان کے پاس دولت اور رتبہ آتا ہے تو وہ رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلقات منقطع کر دیتا ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر ترک تعلق انسان کو تنہا کر دیتا ہے اور یہی آج کل ڈپریشن کی بہت بڑی وجہ ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہا کریں۔ اپنوں کا دکھ بانٹیں۔ رتبہ اور دولت کسی کام نہیں آتی۔ خلوص کے رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں ان کی قدر کیجئے۔

مصنفہ: طاہرہ سید