رمشا وسان کا قتل، وڈیرا سیاست و جرم کی دنیا
14 فروری 2019پاکستان کے مسکین عوام اور خاص طور سندھ کے لوگوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر اس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا جب تک ان کے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ نہیں بنتی۔
یا پھر آصفہ بھٹو جیسی کوئی معروف شخصیت ٹوئیٹ نہیں کرتی یا ٹی وی پر خبرنامہ دیکھتے وقت خاتون اول عمران خان کو نہیں بتاتیں کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور انہیں ان زیادتیوں کے خلاف اقدامات کرنے چاہییں ۔ سندھ کے علاقے خیرپور میرس کی چودہ سالہ بچی رمشا کے قتل میں بھی یہی ہوا۔ رمشا وسان کے قتل کے سنگین جرم کو ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ قرار دیا گیا۔ ملک میں ایسے ہی حالات کے لیے شاید فیض نے کہا تھا؛
اک گردن مخلوق جو ہر حال میں خم ہے
اک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے
چودہ سالہ بچی رمشا انیس جنوری کو اغوا ہوئی اور سات دن تک غائب رہی، پھر جب لوٹی تو یکم فروری کو قاتلوں نے اس کے گھر میں گھس کر اس کی ماں کے سامنے اسے گولیاں مار کر قتل کردیا۔ پولیس نے اس معصوم بچی کے قتل کو ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ قرار دے کر خود ہی اپنے طرف سے آیف آئی آر کاٹ لی۔ قتل کا مرکزی ملزم ذوالفقار وسان پانچ دن تک گرفتار نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ مرکزی ملزم سندھ میں حکمران پارٹی کے سابق وزیر منظور وسان اور مشیر نواب وسان کا قریبی رشتہ دار بتایا جاتا ہے۔ یہ سندھ ہے جسے گیدڑ کب کا کھا چکے ہیں اس کہاوت کے بالکل برعکس کہ ’’ابھی سندھ گیدڑوں نے نہیں کھائی“۔
مقتولہ چودہ سالہ رمشا وسان ساتویں جماعت کی طالبہ ضلع خیرپور میرس میں کوٹ ڈجی تحصیل کے علاقے پیر بڈو یا نواب وسان کی رہنے والی اور انتہائی مسکین ماں باپ کی بیٹی تھی۔ اس بچی کا قصور یہ تھا کہ وہ چند جماعتیں پڑھ لکھ کر سوال کرنے لگی تھی وڈیروں کی وڈیرہ شاہی پر، بچیوں کے اپنے مستقبل پر اور اپنی مرضی اور مالکی پر۔
رمشا کی یہ باتیں وڈیروں تک جا پہنچیں جو سندھ میں طالبان کی صدیوں پرانی شکل ہیں۔ رمشا وسان اغوا ہوگئی یا غائب کردی گئی۔ کئی لوگوں نے کہا کہ رمشا اپنی مرضی سے کسی لڑکے کے ساتھ نکل گئی ہے۔ وہ چھ دن کے بعد گھر واپس آئی۔ مقامی میڈیا کے مطابق جرگہ بیٹھا جس نے رمشا کا فیصلہ کرنا تھا مگر اس سے قبل رمشا کے وسان قبیلے سے تعلق رکھنے والے چار جرائم پیشہ افراد نے جن کا سرغنہ ذوالفقار وسان تھ، اس کے گھر میں گُھس کر رمشا کے ماں باپ کے سامنے اسے قتل کردیا۔
رمشا کی ماں کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی کو علاقے میں قتل اور ڈکیتیوں سمیت بیس سے زائد مقدمات میں مطلوب ذوالفقار وسان نے ہی اپنے ٹولے کے ہمراہ اسلحے کے زور پر اغوا کیا تھا۔ یہ بھی بچے بچے کو معلوم ہے کہ ذوالفقار وسان سندھ میں پی پی پی کے سابق صوبائی وزیر منظور وسان اور اس کے بھائی اور وزیر اعلٰی سندھ کے مشیر کا قریبی عزیز ہے بلکہ ’’وانٹھا‘‘ یعنی خاص بندہ ہے۔ رمشا وسان کا گھر سابق وزیر منظور وساں اور اس کے بھائی کے بنگلوں سے بمشکل دو سو گز بھی دور نہیں ہوگا لیکن پھر بھی رمشا کے والدین سے ہمدردی کرنے کوئی نہیں پہنچا۔ نہ وڈیرے اور نہ ہی گاؤں والے۔ علاقے کے چند صحافیوں نے مجھے بتایا کہ رمشا کے ماں باپ کو رمشا کی تعزیتیں بھی وصول کرنے نہیں دی گئیں۔ بلکہ جب رمشا کے گھر پر حزب مخالف کی رکن صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی اور مقامی اور وفاقی انسانی حقوق کمیشن کے کارکن اور وکیل پہنچے تو گاؤں میں منظور وسان کے حامیوں نے انہیں رمشا کے والدین سے ملنے نہیں دیا۔ لیکن پی پی پی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حزب مخالف رمشا کیس کو سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے۔
کوٹ ڈجی کے قریب نواب وسان یا رمشا کا گاؤں میڈیا اور پولیس کے لیے ’’نو گو ایریا “ بنا ہوا تھا۔ رمشا کے قتل پر سندھ میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے لوگوں اور حزب مخالف کی پارٹیوں کے احتجاج کے بعد پولیس اور انتظامیہ حرکت میں آئی۔ رمشا بھی ان دو سے تین ہزار عورتوں کی تعداد میں شامل کردی گئی جو ہر سال سندھ اور ملک میں ’’غیرت‘‘ یا کارو کاری کے نام پر قتل ہو جاتی ہیں۔ سندھ تو کارو کاری کے نام پر قتل ہونے والی عورتوں کا گویا ایک بڑا قبرستان ہے اور خیرپور میرس اس میں گویا کاروکاری کا کیپیٹل یا راجدھانی۔
مرکزی ملزم کے لیے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خیرپور میرس میں نام نہاد غیرت کے نام پر وسان قبیلے کی عورتوں اور دیگر قبیلے کے مردوں کو قتل کرنے پر مامور ایک غیر ریاستی جلاد ہے۔ علاقے میں یہ سب جانتے ہیں کہ ذوالفقار وسان کے خلاف سنگین جرائم کے بیس مقدمات درج ہیں جن میں سے تین مقدمات غیرت کے نام پر تین مختلف عورتوں اور دو مردوں کے قتل کے شامل ہیں۔ اس پر الزامات ہیں کہ وہ وسان قبیلے کی تین عورتوں کو نام نہاد ’’کارو کاری‘‘ کے نام پر قتل کر چکا ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے چھ سال قبل وسان قبیلے کی ہی ایک نوجوان عورت بابرہ وسان کو قتل کرنے کے بعد شنبانی قبیلے کے نوجوان کو بس سے اتار کر قتل کردیا تھا۔ خیرپور میرس سے ہی تعلق رکھنے والے سندھ کے نوجوان صحافی اور اینکر پرسن اسد ممتاز رڈ نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا ہے کہ اگر وہ پیشہ ور قاتل ہے تو پھر کن با اثر شخصیات کی ایما پر قتل کرتا ہے؟ لیکن خیرپور میرس اور علاقے سے تعلق رکھنے والے کئی دیگر افراد نے مجھے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ وسان وڈیروں کا رمشا کے قتل میں ہاتھ نہ ہو لیکن قاتلوں اور اپنے قبیلے کے مجرم پیشہ افراد پر انہوں نے نرم ہاتھ ضرور رکھا ہوا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا رمشا اور دیگر قتل ہونے والوں کے والدین کے ساتھ انصاف ہو سکے گا؟ اور رمشا کے قتل کا ملزم کب جرم ثابت ہونے پر کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا؟ یا پھر یہاں بھی قاتل انصاف سے بڑا نکلے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔