رواں برس عالمی سیاحت کی کووڈ سے پہلے کی سطح پر بحالی کی توقع
19 جنوری 2024اقوام متحدہ کی عالمی سیاحتی تنظیم (یو این ڈبلیو ٹی او) نے آج جمعہ کو کہا ہے کہ 2024ء میں بین الاقوامی سیاحت کووڈ انیس کی عالمی وبا سے پہلے کی سطح سے تھوڑی اوپر چلی جائے گی۔ میڈرڈ میں قائم اس ایجنسی نے ایک بیان میں کہا، ''ابتدائی تخمینوں کے مطابق 2024ء میں بین الاقوامی سیاحت کی سطح 2019 کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ رہے گی۔‘‘
گزشتہ سال کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں 1.3 بلین سیاحوں نے بیرون ملک سفر کیا، جو 2022 کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ اور 2019 میں سیاحوں کی تعداد کا 88 فیصد بنتی ہے۔ یو این ڈبلیو ٹی او نے ''ایشیائی منڈیوں کی مستحکم بحالی‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ سیاحت میں سب سے زیادہ اضافہ مشرق وسطیٰ میں ہوا۔ یہ ''وہ واحد خطہ تھا، جو سیاحوں کی آمد میں 22 فیصد اضافے کے ساتھ کووڈ انیس کی وبا سے قبل یعنی 2019 میں سیاحت کی سطح تک جا پہنچا۔‘‘
دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے خطہ یورپ میں بھی گزشتہ برس سیاحوں کی آمد نے 2019ء کی سطح کے 94 فیصد تک پہنچنے کے ساتھ مستحکم کارکردگی دکھائی۔ افریقی اعداد و شمار وبائی امراض سے قبل ہونے والی سیاحت کے 96 فیصد تک پہنچ گئے۔ اس حوالے سے ایشیا پیسیفک کے خطے نے صرف 65 فیصد کے ساتھ سب سے کمزور بحالی دکھائی حالانکہ چین نے ایک سال قبل اپنی تین سالوں تک قائم رہنے والی زیرو کووڈ کی سخت حکمت عملی بھی ختم کر دی تھی۔
بیجنگ کی جانب سے فرانس، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، اسپین اور ملائیشیا کے شہریوں کے لیے نومبر کے آخر تک ویزا فری سفر کی پیشکش کے ساتھ رواں سال چینی سیاحت میں تیزی آنے کی توقع تھی۔ سیاحت کی عالمی تنظیم کے سیکرٹری جنرل ژوراب پولولیکاشویلی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''یو این ڈبلیو ٹی او کا تازہ ترین ڈیٹا سیاحت کی صنعت کی لچک اور تیزی سے بحالی کی نشاندہی کرتا ہے، جو 2024ء کے آخر تک وبائی امراض سے پہلے کی سطح پر لوٹ جانے کی امید ہے۔‘‘
2024ءکے لیے اس عالمی تنظیم کی پیش گوئی تاہم ''ایشیا میں سیاحت کی بحالی کی رفتار اور موجودہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی نشیب و فراز کے خطرات سے مشروط ہے۔‘‘ ان عوامل میں خاص طور پر اسرائیل اورحماس کے مابین جنگ اور غیر مستحکم عالمی معیشت شامل ہیں۔ پولولیکاشویلی نے متنبہ کیا، "مسلسل افراط زر، بلند شرح سود، تیل کی غیر مستحکم قیمتیں اور تجارتی رکاوٹیں 2024 میں ٹرانسپورٹ اور رہائش کے اخراجات کو متاثر کرتی رہیں گی۔‘‘
ش ر⁄ ر ب (اے ایف پی)