رواں برس پاکستان کرکٹ ٹیم کی ریکارڈ فتوحات
26 دسمبر 2011مصباح الحق کی شاندار قیادت میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور بنگلہ دیش کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا جیسی بڑی ٹیموں کو ہرا کر اپنی عالمی رینکنگ کو بہتر بنا لیا، جو اب پانچ ہو چکی ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں اوپنر توفیق عمر 831 رنز بنا کر سال کے سب سے کامیاب پاکستانی بیٹسمین اور آف اسپنر سعید اجمل پچاس وکٹوں کے ساتھ دنیا کے سب سے کامیاب باؤلر ٹھہرے۔ ون ڈے میں بھی چونتیس وکٹیں لیکر سعید اجمل عالمی نمبر ایک باؤلر بن گئے تاہم پاکستان کی کامیابیوں کا مرکزی کردار آل راؤنڈر محمد حفیظ تھے، جنہوں نے ٹیسٹ میچوں میں چھ سو سینتالیس اور ون ڈے میں ایک ہزار پچھتر رنز بنانے کے علاوہ تینوں طرز کی کرکٹ میں ستاون کھلاڑیوں کو بھی آؤٹ کیا۔
محمد حفیظ کا اپنی اور پاکستانی ٹیم کی ناقابل یقین کارکردگی کے بارے میں کہنا تھا کہ ہم نے دوسروں کے مقابلے میں دیار غیر میں خود کو منوایا ہے، جس سے ٹیم کی قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔
دو ہزار گیارہ میں ہی پاکستان نے شاہد آفریدی کی کپتانی میں تیرہ سال بعد ورلڈ کپ سیمی فائنل کھیلنے تک رسائی حاصل کی ۔
سیمی فائنل میں روائتی حریف بھارت کے ہاتھوں موہالی کی اس شکست کے بعد بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کو وطن واپسی پر سر آنکھوں پہ بٹھایا گیا مگر کوچ، سلیکٹرز اور چئیرمین پی سی بی کے خلاف کھلی بیان بازی شاہد آفریدی کو اتنی مہنگی پڑی کہ وہ عرش سے فرش پر آگئے اور انہیں ٹیم میں واپسی کے لیے تیسری بار ریٹا ئرمنٹ واپس لینے کے ساتھ ساتھ پینتالیس لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا۔
اسی سال متنازع فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے کرکٹ کو الوداع کہا جبکہ وقار یونس کو بھی مستعفیٰ ہو کر قومی ٹیم کی کوچنگ سے الگ ہونا پڑا۔ تاہم اسپاٹ فکسنگ کا بھوت دو ہزار دس کے بعد گیارہ میں بھی پاکستانی کرکٹ کے سر پر سوار رہا اور اسی کی پاداش میں آئی سی سی نے فروری میں ناصرف تین سر کر دہ پاکستانی کرکٹرز سلمان بٹ ، محمد آصف اور محمد عامر پر کم ازکم پانچ سال کرکٹ کھیلنے کی پابندی لگادی بلکہ آٹھ ماہ بعد جرم ثابت ہونے پر برطانوی عدالت نے تینوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا، جس پر انیس سالہ محمد عامر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور کہا کہ دو نو بالز کی سزا پانچ سال زیادہ ہے۔
اسی سال اکتوبر میں جب صدر زرداری کے قریبی دوست ذکا اشرف نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین کا عہدہ سنبھال کر اپنے پیش رو اعجاز بٹ کے انتہائی متنازع اور ہنگامہ خیز تین سالہ دور کا خاتمہ کر دیا۔
قومی کھیل ہاکی میں پاکستان نے امسال ڈبلن اور پرتھ کا ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزازحاصل کیا تاہم رواں ماہ آکلینڈ چمپئنز ٹرافی گرین شرٹس کے لیے ایسا ڈراونا خواب ثابت ہوئی کہ اسے آٹھ ملکوں کی صف میں سے ساتویں نمبر پر کھڑا ہونا پڑا، جس پر ہاکی فیڈریشن کی برطرفی کا بھی مطالبہ سامنے آیا۔ رواں برس کے آخر میں چینی ہاکی ٹیم کی آمد سے پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی واپسی کا راستہ بھی کسی حد تک ہموار ہوا ہے۔
فٹبال اور سکواش کے لیے دو ہزار گیارہ اچھی خبریں نہ لاسکا۔ پاکستان فٹبال ٹیم کے ساؤتھ ایشین گیمز کے سیمی فائنل میں نہ پہنچنے پر اس کی عالمی رینکنگ ایک سو سرسٹھ سے بھی گرکرایک سو اناسی ہوگئی البتہ ٹینس سٹار´سال بھر اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بدولت شہ سرخیوں میں رہے۔ وہ اس سال پیرس ماسٹرز جیت کر ورلڈ ٹور کے لیے کوالیفائی کرنیوالے پہلے پاکستانی بن گئے ۔ دو ہزار گیارہ کے آخر میں اعصام الحق کی بھارتی پارٹنر روہن بھوپنا کے ساتھ دیرینہ جوڑی ٹوٹ گئی۔ تاہم انہوں پاکستانی نژاد برطانوی دوست فاہا مخدوم کو شریک حیات بنا کر نئے سال سے چند دن پہلے زندگی میں ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد