روزے اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں افطار پارٹیاں
7 مئی 2019دنیا بھر میں قریب 1.8 بلین مسلمان آباد ہیں اور مختلف معاشروں میں ثقافتی تنوع کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدے پر عمل پیرا ہیں۔ یہی تنوع دین اسلام کو دیگر ادیان سے منفرد کرتا ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والے اپنی مذہبی اقدار و رسومات کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی اپنی فکر، اپنی روحانی اور جسمانی صلاحیتوں کے مطابق کرتے ہیں۔ اسلامی یا ہجری کیلینڈر کے مطابق سال کے بارہ مہینوں کی الگ الگ خاصیتیں، نام اور الگ الگ تہوار ہیں، جنہیں مسلمان اپنے اپنے عقیدے کے تحت مناتے ہیں۔ سب سے زیادہ جوش و خروش رمضان کی آمد پر دیکھنے میں آتا ہے۔
رحمتوں والے مہینے کا آغاز اور اختتام اختلاف پر
یہ مہینہ مجھے بچپن ہی سے سب سے زیادہ رونقوں اور چہل پہل والا مہینہ لگا کرتا تھا۔ جب سے وطن چھوٹا اور ہم پردیسی ہوگئے، تب سے ہر سال مجھے اپنے والدین کا گھر سب سے زیاد رمضان کے ماہ میں ہی یاد آنے لگتا ہے۔ میرے لیے اس ماہ کی اہمیت صرف اس لیے نہیں کہ اس میں خاص طور سے عبادات کی جاتی ہیں بلکہ اس پورے مہینے کے دوران انسانوں کا دوسرے انسانوں سے ربط و ضبط اور ہر طبقے کے انسانوں کے ساتھ اشیائے خوردونوش سے لے کر لباس اور ضرورت کی دیگر چیزوں کو ’شیئر‘ کر کے دل کو پہنچنے والی خوشی ہے۔
چند باتیں مگر مجھ پر بچپن ہی سے ناگوار گزرتی تھیں اور اب بھی ہر سال رمضان آتے ہی میرے ذہن و ادراک پر دستک دیتی ہیں، اُن کا تعلق اسلامی دنیا کے اندر پائی جانے والی تقسیم سے ہے۔ ایک طرف تو اشرف المخلوقات کے کارناموں اور روز بروز سائنسی ایجادات اور ترقی میں اس کے کردار کا چرچہ رہتا ہے، دوسری جانب اس پر جھگڑا کہ مسلمانوں کا کونسا گروہ کب کس دن سے روزے رکھنا شروع کرے گا اور کس روز عید منائے گا؟ کسی کو چاند نظر آ گیا کسی کو نہیں۔ یہ کتنا بڑا تضاد ہے، بیرونی دنیا کے لوگ اس پر نہ صرف حیران ہوتے ہیں بلکہ تمسخر بھی اڑاتے ہیں۔ دو مختلف خطوں میں چاند کا مختلف اوقات میں نظر آنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک ہی ملک کے اندر اگر رمضان کے آغاز اور عید کے دن پر اتفاق نہیں ہو سکتا تو عقل صرف حیران ہوتی ہے۔ انسان ستاروں پر کمند ڈالنے میں کامیاب ہو چُکے، خلاء نوردوں نے مختلف سیاروں کی تسخیر کر لی۔ چاند پر پانی اور مختلف سیاروں پر آکسیجن کی موجودگی کا سراغ لگایا جا رہا ہے مگر مسلمان )خاص طور سے جنوبی ایشیائی ممالک کے( نہ تو ایک اسلامی کیلینڈر تیار کر پائے ہیں نہ ہی رویت ہلال پر متفق ہو سکے ہیں۔
معاملہ دراصل کر سکنے کا نہیں معاملہ اتفاق اور اتحاد کے مظاہرے کی حُب کا ہے۔ یہ شوق ہمارے علما اور مشائخ میں پاپا ہی نہیں جاتا۔ اگر وہ وحدت مسلمہ کو اہمیت دیتے ہوئے ایسے مسائل کا حل تلاش کر بیٹھیں تو آئے دن اُن کے نام اور تصویریں اخباروں کی سرُخی کیسے بنیں گی؟ تازہ ترین مثال لے لیجیے جب پاکستان کے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا کہ ’’عید اور رمضان کے چاند دیکھنے پر 40 لاکھ خرچ کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے‘‘ تو زیادہ تر علما اُن پر برس پڑے۔ فواد چودھری نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 10 سال کا کیلنڈر بنا کر غیر ضروری اخراجات اور تنازعات سے بچنے کی بات کی تو جمعیت علمائے پاکستان اور تحریک صراطِ مستقیم کے علماء نے اسے کروڑوں مسلمانوں کے روزے کو محکمہ موسمیات اور ٹیکنالوجی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف قرار دیا۔
نفس کو مارنا یا افطار کے وقت دکھاوے کا مقابلہ
ہر مسلمان کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ روزے کا مقصد چند گھنٹوں کا فاقہ اور غروب آفتاب سے وقت سحر تک ہر طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا نہیں بلکہ پورے مہینے کا روزہ انسانوں کو یہ احساس دلانے کا سبب بننا چاہیے کہ بھوک اور پیاس کی شدت کیسی ہوتی ہے؟ اپنا پیٹ کاٹ کر مستحقین کی مدد کرنا نفس کی بھوک کو ختم کر سکتا ہے۔ جو صورتحال اکثریتی مسلم معاشروں میں نظر آتی ہے، وہ اس احساس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں رمضان کے ماہ کے اخراجات اور اشیائے خورد و نوش کی افراط سے یہ بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ اس ملک میں چوالیس فیصد بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے اور یہاں غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ بڑے شہروں میں افطار کی تیاری اور خریداری کا سماں قابل دید ہوتا ہے۔ طرہ امتیاز یہ کہ گزشتہ دہائیوں کے دوران ریستورانوں اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں افطار پارٹیوں کا رواج عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس رجحان کے پیچھے صرف غذائی ہوس نہیں بلکہ معاشرے کو پلیگ کی مانند کھا جانے والی وہ بیماری ہے، جسے عرف عام میں ’’دکھاوا‘‘ کہتے ہیں۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دین کو سمجھ کر اور اس کے احکامات کے پیچھے پنہا مشیت کو جانے بغیر صدقہ و خیرات اور زکواۃ جیسے فریضے کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں برتی جا رہی ہیں ان پر کبھی بات ہی نہیں ہوتی۔ آمر فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور سے ایک نیا سلسلے شروع ہوا یعنی بینکوں سے زکوٰۃ کٹ جانے کا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی بینکوں میں لوگ قطاروں میں کھڑے نظر آنے لگے، جو اپنے اکاؤنٹ میں موجود مالی اثاثوں کو حکومت کی طرف سے لازمی قرار دی گئی زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچانے کے لیے اپنا مسلک یا فقہ اور نام تبدیل کرنے کی درخواست جمع کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے اکاؤنٹس میں سے پیسے نکلوا لیتے ہیں۔
یہ ہے ہمارے معاشرے میں دین پر قائم رہنے کا ڈھنگ۔ سب سے زیادہ حیرت اور افسوس کی بات یہ کہ مذکورہ رجحانات اور رمضان سے متعلق رسم و رواج کو دینی حلقوں کی طرف سے بھی کبھی سخت تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے اور نہ ہی علمائے دین اس بارے میں فتوے جاری کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں، جہاں سب سے سہل طریقے اور کثرت سے کیا جانے والا عمل فتوے جاری کرنے کا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔