روس اور بھارت کے مابین مشترکہ ہتھیارسازی پر بات چیت
9 نومبر 2022رواں برس روسی وزیر خارجہ لاوروف کی بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ پانچویں ملاقات تھی۔
روسی خبر رساں ایجنسی تاس کی اطلاع کے مطابق لاوروف کا کہنا تھا، "ہم نے فوجی تکنیکی تعاون بشمول جدید ہتھیاروں کی صورت حال اور تیاری امکانات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی۔" تاس نے تاہم مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
وزیراعظم نریندر مودی اور صدر ولادیمیر پوٹن میں کیا باتیں ہوئیں؟
لاوروف کا کہنا تھاکہ دونوں مملک اپنے تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں اور جوہری توانائی اور خلائی سفر جیسے شعبوں میں بھی زیادہ قریبی تعاون کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت دہائیوں تک روسی فوجی ساز و سامان پر انحصار کرتا رہا ہے۔ جب کہ روس بھارتی دواؤں اور طبی مصنوعات کا چوتھا سب سے بڑا مارکیٹ بھی ہے۔
بھارت اور روس کے تعلقات
فروری میں یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا یہ ماسکو کا پہلا دورہ تھا۔ ان کے ساتھ وزارت زراعت، پٹرولیم اور قدرتی گیس، بندرگاہوں اور جہاز رانی، خزانہ، کیمیکلز اور فرٹیلائزر اور تجارت کے اعلیٰ افسران بھی دورے پر گئے ہیں۔
جے شنکر کا کہنا تھا، "روس ہمارا مستحکم اور وقت کی کسوٹی پر پورا اترنے والا شراکت دار ہے۔ اگر پچھلے کئی دہائیوں پر مشتمل ہمارے باہمی تعلقات کا معروضی تجزیہ کیا جائے تو اس بات کی تصدیق ہوگی کہ اس نے درحقیقت دونوں ملکوں کے مفادات کو بہت، بہت ہی بہتر طور پر پورا کیا ہے۔"
یوکرین اور روس کی جنگ، ماسکو پر مغرب کی پابندیاں، بھارت کیوں پریشان؟
خیال رہے کہ بھارت کے ماسکو اور مغرب دونوں کے ساتھ ہی قریبی تعلقات ہیں اور یہ ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جس نے یوکرین میں روسی جنگ کی مذمت نہیں کی ہے۔ نئی دہلی روس کے خلاف مغربی پابندیوں کی بھی حمایت نہیں کرتا اور اس کے بجائے تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے حق میں ہے۔
بھارت روسی تیل کی خریداری جاری رکھے گا
جے شنکر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت روس سے تیل کی خریداری جاری رکھے گا۔
چونکہ مغربی ممالک ماسکو سے ایندھن پر اپنا انحصار کم سے کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ایسے میں بھارت چین کے بعد روس سے ایندھن خریدنے والا دوسرا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، "دنیا میں تیل اور گیس کے تیسرے سب سے بڑے صارف کے طور پر نیز ایک ایسے ملک کے طور پر جس کی آمدنی بہت زیادہ نہیں ہے، ہمیں سستے وسائل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اس لیے بھارت اور روس کے درمیان تعلقات ہمارے لیے ایک اضافی فائدہ ہے۔"
خیال رہے کہ فروری میں یوکرین پر فوجی حملے سے قبل بھارت کی روس سے تیل کی درآمدات تقریباً 2 فیصد تھی جو کہ ستمبر میں اب تک کی سب سے زیادہ شرح 23 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
دریں اثنا امریکہ نے بھارت اور روس کے درمیان تجارت میں اضافہ کی کوششوں کی نکتہ چینی کی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ روس کے ساتھ تجارت کا وقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا،"یہ بات ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے کہ بھارت دھیرے دھیرے روس پر اپنا انحصار کم کرے۔"
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، انٹر فیکس)