روس اور مغربی ملکوں کے مابین لفظوں کی جنگ
4 دسمبر 2014یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم ( او ایس سی ای) کا سالانہ اجلاس سوئٹزر لینڈ کے شہر بازل میں شروع ہو گیا ہے۔ اس اجلاس میں ستاون ملکوں کے وزرائے خارجہ شریک ہیں جبکہ ایجنڈے میں سرفہرست یوکرائن کا تنازعہ ہے۔ اس اجلاس کے موقع پر بھی یوکرائن کے حمایتی ملکوں اور روس کے مابین لفظوں کی جنگ دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ واشنگٹں روس کو تنہا نہیں کرنا چاہتا بلکہ روس اپنی پالیسیوں کے ذریعے تنہا ہو رہا ہے۔ انہوں نے روس سے ایک مرتبہ پھر یوکرائن کے دن بدن بگڑتے ہوئے بحران کے حل میں مدد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن یوکرائن کی خود مختاری اور حقوق کی حمایت کرتے رہیں گے۔
اس وقت مشرقی یوکرائن میں حکومتی فوج اور روس نواز باغیوں کے مابین ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی بھی یہی یورپی تنظیم کر رہی ہے۔ یہ جنگ بندی معاہدہ پانچ ستمبر کو مِنسک میں طے پایا تھا لیکن ابھی تک اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔ ابھی تک اس تنازعے میں تقریباﹰ چار ہزار تین سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف سے بھی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات سے پہلے جان کیری نے کہا تھا کہ روس ابھی بھی باغیوں کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ روس ایسے الزامات کی ابھی تک تردید کرتا آیا ہے۔
دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے آج اپنے سٹیٹ آف یونین خطاب میں کہا ہے کہ ان کا ملک سابق سوویت یونین ریاستوں کی خود مختاری کی عزت کرتا ہے اور اس میں یوکرائن بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ روس نہ صرف یوکرائن بلکہ دیگر سابق سوویت یونین ریاستوں کے خود مختار ہونے کے عزائم کی حمایت کرتا ہے۔‘‘
روسی صدر کے اس بیان کے بعد یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے سالانہ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ جزیرہ نما کریمیا کے ساتھ الحاق اور مشرقی یوکرائن کو غیر مستحکم کرنے کا روسی کردار او ایس سی ای کے اصولوں کی شدید خلاف ورزی ہے۔ یوکرائن کے معاملے میں ان کا کہنا تھا کہ روس کی پر خلوص حمایت کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔