روس جان لے کہ برداشت کی ایک حد ہے، ترکی
14 دسمبر 2015پیر کے روز ایک اطالوی اخبار میں شائع ہونے والے بیان میں ترک وزیرخارجہ کاؤس آؤلو نے کہا کہ روس اتوار کے روز پیش آنے والے واقعے کو خواہ مخواہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ اتوار کے روز بحیرہء ایجیئن میں ایک روسی جنگی بحری جہاز نے تصادم سے بچنے کے لیے ایک ترک کشتی کی جانب انتباہی گولے فائر کیے تھے، جب کہ ماسکو نے ترکی کے ملٹری اتاچی کو طلب کر کے اس معاملے کی وضاحت مانگی تھی۔
کاؤس آؤلو نے کہا، ’’یہ صرف ایک ماہی گیر کشتی تھی اور لگتا ایسا ہے کہ روسی بحری جہاز نے غیر ضروری ردعمل کا مظاہرہ کیا۔‘‘
اطالوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کاؤس آؤلو نے کہا، ’’روس اور ترکی کو یقینی طور پر اعتماد کے رشتے کو ازسرنو قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو ماضی میں ہمیشہ رہا ہے۔ تاہم ہمارے صبر کی ایک حد ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ ترک فضائیہ نے ایک روسی جنگی جہاز کو شامی سرحد کے قریب مار گرایا تھا۔ تب ہی سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے سخت الفاظ کا تبادلہ جاری ہے۔ اس نئے واقعے نے ان کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کر دیا ہے۔
کاؤس آؤلو نے کہا کہ روسی صدر کی جانب سے اس بیان نے کہ ترکی نے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے تیل کی سپلائی کو تحفظ دینے کے لیے روسی طیارہ گرایا، پہلے ہی روس کو ایک نہایت بری پوزیشن پر لے جا چکا ہے، جس پر کسی نے یقین نہیں کیا۔
کاؤس آؤلو نے ایک مرتبہ پھر شام میں روسی عسکری مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد صرف اور صرف شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کو دوام دینا ہے اور روس اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائیاں نہیں کر رہا ہے۔
’’بدقسمتی سے روس شام میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے نہیں گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہ اب تک روس طیاروں نے صرف آٹھ فیصد ایسی کارروائیاں کی ہیں، جن میں اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور 92 فیصد کارروائیوں کا ہدف اسد مخالف دیگر گروپ رہے ہیں۔
اطالوی اخبار کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کاؤس آؤلو نے کہا کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کو شکست دینے کے لیے صرف فضائی کارروائیاں کافی نہیں ہیں اور اس کے لیے زمینی فوج کی اشد ضرورت ہے۔